مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی تقاریر، خطبات اور مکتوبات کو مصنّفین اور تذکرہ نویسوں نے مختلف کتابوں میں محفوظ کیا ہے جن میں سے بعض اس زمانے کے سیاسی، سماجی حالات اور مذہبی پس منظر میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری نے مولانا سندھی کی ایک تقریر کو اپنی کتاب (مجموعہ مکاتیب) میں نقل کیا تھا، اس تقریر کے متن میں کچھ اختلاف بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں، مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم 24 برس کی جلاوطنی کے بعد 1939ء میں کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پر جہاز سے اترے تھے اور ان کے استقبال کے لیے اہلِ سندھ اور ملک کے منتخب اصحابِ فکر و تدبر کا جو جمِ غفیر بندرگاہ پر موجود تھا، مولانا نے اس سے خطاب کیا تھا۔ ان کی یہ تقریر اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا صحیح ترین متن یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
عزیزانِ گرامی!
1915ء میں مجھے میرے استاد حضرت شیخ الہندؒ نے افغانستان بھیجا تھا۔ آپ کے بزرگوں نے مجھے باہر بھیجا تھا۔ باہر رہ کر جو کچھ اسلام کی خدمت کر سکتا تھا، میں نے کی۔ میرے سامنے پہاڑ آئے، شکست کھا گئے، موت آئی، شکست کھا گئی۔ میں ان سپہ سالاروں کا رفیق رہا جنہوں نے دنیا کے بڑے بڑے معرکے سر کیے۔ آپ میری باتوں کو محض تاثرات یا عارضی ہیجانات کا نتیجہ نہ سمجھیے گا۔ میرے پیچھے تجربات کی دنیا ہے۔ میرے مشاہدات بہت وسیع ہیں۔ میں نے کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھا ہے اور انقلابات اور ان کے اثرات و نتائج کا انقلاب کی سرزمینوں میں رہ کر مطالعہ کیا ہے۔ میں آپ سے کوئی بات چھپانا نہیں چاہتا۔ میرے افکار وقفِ عام ہیں۔ اب میں چراغِ سحری ہوں۔ چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے اس پیغام کو ہندوستان کے نوجوانوں تک پہنچا دوں۔ اگر یہی حالات رہے تو مجھے خطرہ ہے کہ بنگال تقسیم ہو جائے گا۔ پہلے پہل اس انقلاب کی لپیٹ میں افغانستان آئے گا۔
میں انقلاب کا پیامبر بن کر ہندوستان لوٹا ہوں۔ وہ دن دور نہیں کہ برطانیہ اور امریکہ والوں کو اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اس انقلاب کو قیامت سے کم نہ سمجھیے۔ میں نے بڑے بڑے علما کو، بڑے بڑے افراد کو دربدر بھیک مانگتے دیکھا ہے، غیرتوں کو لٹتے دیکھا ہے۔ یہ عالم گیر انقلاب ہے۔ ایک نہ ایک دن ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر رہے گا۔ دیوارِ چین ہو یا سدِ سکندری، یہ سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ دنیا ایک نئے طوفانِ نوح سے دوچار ہوا چاہتی ہے۔ بادل گھر چکے ہیں، گھٹائیں برسنے کو ہیں۔ لیکن ہمارے علما ہیں کہ ان کی نظریں کتابوں تک محدود ہیں، وہ باہر کی دنیا کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ ہمارے سیاست دان بڑی بڑی اسکیمیں بناتے ہیں جو ان کے اغراض و مصالح پر مبنی ہوتی ہیں۔ عوام کو انتہائی نچلے درجے پر رکھ چھوڑا ہے۔
قرآن حق ہے، انجیل حق ہے، تورات حق ہے۔ انجیل کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے اگر عیسائی، اور تورات کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے یہودی کافر ہو سکتا ہے، تو اس ملک کے مسلمان قرآن کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں! اب انقلاب کی گھڑی سر پر آپہنچی ہے۔ سن لو اور سنبھل جاؤ! ورنہ مٹا دیے جاؤ گے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کل ایک طبقہ قوت و اقتدار کا مالک تھا۔ کسان اور مزدور جو کماتے تھے ان کو کھانے کو نہ ملتا تھا، اور جو طبقہ ان کی کمائی پر رہتا وہ کمانا ذلّت کا نشان سمجھتا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کماؤ طبقے پسماندہ ہوتے چلے گئے اور کھاؤ طبقے اخلاق سے گرتے گئے۔ اگر برکتیں پھیلتیں تو سرمایہ دار اور جاگیرداروں کے محلوں میں۔ ذہنوں کو جلا ہوتی تو ان کے ذہنوں کو ہوتی۔ زمانہ مدتوں اسی طرح چلتا رہا۔ سرمایہ دار اور جاگیردار مزدوروں اور کسانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔ آگے چل کر مشینی دور آتا ہے۔ مزدوروں نے مشینوں پر قبضہ کر لیا، جاگیردارانہ نظام ختم ہو گیا۔ آج ان کا نعرہ ہے: ’’مزدور اور کسانو، اٹھو! یہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور محلات تمہاری کمائی سے تعمیر ہوئے ہیں۔ یہ تمہارے ہیں۔ ان کے مالک تم ہو۔ اٹھو اور ان پر قبضہ کر لو۔ اور جو آڑے آئے اسے مٹا دو!‘‘
مسلمانو! اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو اس فلسفے کو قبول کرو جس کی ترجمانی امام ولی اللہ دہلویؒ نے کی ہے۔ اگر تمہارے امرا نے غربا کی خیر خواہی نہ کی تو تمہارا بھی وہی حشر ہو گا جو بخارا کے مسلمانوں کا ہو چکا ہے۔ بخارا کے اندر ایک ایک مدرسہ عربی کی یونیورسٹی تھا۔ ترکی کی جو سیاسی طاقت ہے، آپ کے ملک کی وہ سیاسی طاقت نہیں۔ جس انقلاب کے سامنے بخارا کی مذہبیت نہ ٹھہری، ترکی کی سیاست نہ ٹھہری، اس کے سامنے تم اور تمہاری یہ مسجدیں اور مدرسے کیسے ٹھہر سکتے ہیں۔ جب غریب کی جھونپڑی سے انقلاب اٹھتا ہے تو وہ امیر کے محل کو بھی پیوستِ زمین کر کے جاتا ہے۔ انقلاب آتا ہے تو نہ مسجدیں دیکھتا ہے، نہ خانقاہیں، نہ ایوان و محلات، سب کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔
اگر میں مر گیا اور میرے مرنے کے تین سال کے اندر انگریز ہندوستان سے نہ چلا گیا تو میری قبر پر آ کر کہنا کہ انگریز یہاں بیٹھا ہے۔ یاد رکھو! میں نے انگریز کی بیخ و بنیاد کو اکھیڑ دیا ہے، اب وہ ہندوستان میں نہیں رہ سکتا، عنقریب تم مجھے یاد کرو گے، میں اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔