لندن: پہلے کرونا وبا اور پھر روس- یوکرین جنگ کے باعث مہنگائی کی لہر نے جہاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہی برطانیہ جیسے امیر اور ترقی یافتہ ملک میں بھی ہر ماہ مہنگائی کے نئے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں جاری عالمی مہنگائی کی لہر نے ہر خاص و عام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، اور تمام ملک کی حکومتیں اور عوام اس مہنگائی کی لہر سے پریشان دکھائی دیتے ہیں, اور عوام کو اپنے اخراجات پورے کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، یہاں تک کہ برطانیہ میں شہری اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے دن میں ایک وقت کا کھانا کھانے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔
برطانیہ میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 52 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے دوستوں میں جانا بند کر دیا ہے تاکہ بچت کو یقینی بنایا جا سکے، جبکہ 28 فیصد کا کہنا تھا کہ انہوں نے ٹی وی کیبل کی ادائیگیاں بند کردی ہیں۔ 65 فیصد افراد نے گھروں میں حدت پیدا کرنے والے نظام کو بند کرکے صرف ضرورت کے اوقات میں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، 44 فیصد نے گاڑی چلانا کم کر دیا ہے،
دوسری جانب برطانوی ادارہ شماریات دفتر نے ملک میں اپریل کے مہینہ کے اعداو شمار جاری کردیے ہیں، جس کے مطابق اپریل میں افراط زر کی شرح 9 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو کہ 40 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی عوام نے مہنگائی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے دیا
ملک میں اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سب سے بڑا سبب بجلی، گیس اور دیگر ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں، اپریل میں توانائی کی قیمتوں میں 54 فیصد اور موٹر ایندھن کی قیمتوں میں 31.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ اوسط گھرانے کے بجلی، گیس کے بلوں میں سالانہ 700 پاؤنڈ کا اضافہ ہوا ہے جبکہ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ قومی ادارہ شماریات برطانیہ کے مطابق اپریل سے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی شرح واپس 20 فیصد پر آنے سے ریسٹورنٹس میں بھی اشیا مہنگی ہوئی ہیں۔