یوکرین روس تنازع جنگ میں تبدیل ہوچکا ہے اور روس نپی تلی پیش قدمی کیساتھ یوکرین کے دارالحکومت کیف تک پہنچ چکا ہے اور روس کی ذرا سی غلطی یا امریکا و اتحادی ممالک کی مداخلت تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یوکرین کا دارالحکومت کیف ایک تاریخی اور قدیم شہر ہے جو کبھی روس کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔
روس مکمل طور پر یوکرین پر قبضہ کرکے خود میں ضم کرتا ہے یا پھر یوکرین میں روس نواز حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے، کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مگر یوکرین سے متعلق کچھ تاریخی حقائق ہیں جنہیں جاننا بہت ضروری ہے، جن پر بڑی بڑی سلطنتوں کا بھی اختلاف رہا ہے۔
متنازع تاریخ
یوکرین کے لفظی معنی ‘کنارے پر’ کے ہیں، غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق موجودہ روس اور یوکرین دونوں ہی اپنی جڑیں قرون وسطیٰ کی ریاست کیئوان رس میں تلاش کرتے ہیں، جو اپنے عروج میں بحیرہ اسود سے بالٹک تک پھیلی ہوئی تھی، اسی لیے روسی صدر نے بھی اپنے ایک مضمون میں یوکرینی اور روسی شہریوں کو ایک ہی قرار دیا تھا۔
نقشے نظر آنے والا یوکرین ماضی میں پولش اور لتھوانین دولت مشترکہ کا حصّہ تھا جب کہ 18 ویں صدی کے آخر تک دیگر یوکرین کے کچھ علاقے قاز اور کریمین تاتار کے زیر اثر تھے۔
اس کے بعد یہ زار کی روسی سلطنت کا حصہ بن گیا حالانکہ کچھ مغربی علاقوں کا تعلق آسٹرو ہنگری سلطنت سے تھا۔
چرنوبل
چرنوبل یوکرینی کا ایسا علاقہ ہے جس کا کنٹرول روس اور یوکرین دونوں حاصل کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ اس علاقے میں اگلے 24 ہزار سال تک کوئی انسان آباد نہیں ہوسکتا، جس کی وجہ 26 اپریل 1986 میں چرنوبل جوہری پلانٹ پر پیش آنے والا خوفناک حادثہ تھا۔
1986 میں پیش آنے والے حادثے کے باعث سیکڑوں افراد لقمہ اجل بنے تھے جب کہ ایٹمی پلانٹ کے اردگرد 30 کلومیٹر کے دائرے تک ساڑھے تین لاکھ افراد کو نکالا گیا، اسی وجہ سے چرنوبل ایٹمی پلانٹ دنیا میں بہت زیادہ شہرت کا حامل ہے۔
اسٹالن کی غلط پالیسیاں اور یوکرین میں قحط
یوکرین ماضی میں سوویت یونین کا حصّہ بھی رہا ہے، اس دور میں جوزف اسٹالن کی سوویت یونین پر حکومت تھی جس کی غلط پالیسیوں نے یوکرین کو قحط کے منہ میں دھکیل دیا تھا اور 50 لاکھ افراد قحط کے باعث لقمہ اجل بن گئے تھے۔
کئی دہائیوں بعد سنہ 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ماسکو اور کیئف میں کشیدگی پھر بھڑک اٹھی، جب یوکرینی عوام کی اکثریت نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔
معاشی مسائل و بدعنوانیاں
سنہ 2014 میں مغربی نواز بغاوت کے بعد روسی حمایت یافتہ صدر وکٹر یانوکووچ فرار ہو گئے اور کریمیا روس میں ضم ہوگیا جب کہ صنعتی خطہ ڈونبس بھی یوکرین کے اختیار سے نکل گیا۔
دونوں اہم علاقوں کا کنٹرول کھونے کے بعد یوکرین کی معیشت زوال کا شکار ہوئی اور پیداوار چھ فیصد سے زیادہ گراوٹ کا شکار ہوگئی جو 2015 میں دس فیصد تک بڑھ گئی اور مہنگائی نے 40 فیصد سے زیادہ کی چھلانگ لگائی۔
واضح رہے کہ اس تنازعات کے دوران 14 ہزار لوگ قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں.
اس جنگ زدہ ملک کی معیشت کا انحصار زیادہ تر یورپ کو فراہم کی جانے والی روسی گیس پائپ لائن کے ٹرانزٹ فیس پر ہے اور نورڈ اسٹریم گیس لائنوں پر یہ بھی نہیں ملے گی۔
اس سے قبل 2006 اور 2006 میں روس اور یوکرین کے درمیان تنازعات نے جنم لیا تھا تو روس نے یوکرین کو سپلائی روک دی تھی جس کے باعث یورپ میں قلت پیدا ہوگئی تھی۔
اس کے بعد سے معیشت میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن ساڑھے چار آبادی والا ملک یورپ کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔
رپورٹ کے مطابق آج بھی یوکرین میں اوسط ماہانہ تنخواہ 615 ڈالر ہے۔
یوکرین کو پہلے ہی معاشی مشکلات کا سامنا تھا ایسے حالات میں یوکرین میں بدعنوانیاں بھی عروج پر تھی، اس کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگاکر ہی موجودہ یوکرینی صدر زیلسنکی نے اقتدار سنبھالا تھا۔
بورشٹ اور چکن کیئف
مغرب میں کچھ لوگ بورشٹ کو روسی کھانوں کا مترادف سمجھتے ہیں، یوکرین کا دعویٰ ہے کہ چقندر کے ساتھ بند گوبھی پر مشتمل یہ سوپ اس کے قومی ورثے کا ایک حصہ ہے، جس کا تعلق 14 ویں صدی سے ہے۔
چکن کیئف سمیت روس اور یوکرین کے درمیان متعدد دیگر پکوانوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔