تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

ایرانی خواتین اپنے ہی ملک میں دوسرے درجے کے شہریوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور

تہران: ایران میں خواتین اپنے حقوق کی پامالی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایران میں خواتین کی حیثیت دوسرے درجے کے شہریوں جیسی ہے۔

اردو نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔

یہ رپورٹ 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر شائع کی گئی ہے جس میں ایرانی حکومت کی جانب سے ملک میں مختلف گروپوں کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں تفصیل دی گئی ہے۔

مصنف جاوید رحمٰن کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانی حقوق کی حامی خواتین، لڑکیاں، اقلیتیں، مصنفین، صحافی اور دہری شہریت کے حامل افراد حکومت کے نشانے پر ہیں۔

انہیں بدسلوکی، تشدد، نظر بندی، ہراسگی، جبری اعتراف جرم سمیت سزائے موت جیسی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس رپورٹ میں لڑکیوں کی شادی کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال صرف 6 ماہ کے دوران ایران میں 16 ہزار سے زائد ایسی شادیاں ہوئیں جن میں لڑکیوں کی عمر 10 سے 14 سال کے درمیان ہے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے جاوید رحمٰن کا کہنا تھا کہ آج ایران میں جب خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو ان میں سب سے سنگین مسئلہ بچیوں کی شادی کا ہے، شادی کے لیے قانون کے مطابق موجودہ عمر ناقابل قبول ہے۔

جاوید رحمٰن نے ایرانی صحافیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایرانی حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کے بارے میں رپورٹ کرنے والے صحافیوں اور مصنفین کے مسلسل نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو ماہرین، صحت سے متعلق انتظامات کے بارے میں سوالات کرتے ہیں انہیں بھی اکثر قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا یا ملازمت سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

ایران جانے کے لیے جاوید رحمٰن کی درخواستیں کئی مرتبہ مسترد ہونے کے بعد انہوں نے سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا سے جمع کردہ تمام ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے یہ رپورٹ مرتب کی ہے۔

اس رپورٹ میں انہوں نے زیادتیوں کا نشانہ بننے والےافراد کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ اور وکیلوں کے انٹرویوز بھی شامل کیے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے ایرانی کوششوں کی راہ میں بین الاقوامی پابندیاں رکاوٹ تھیں، تاہم ایرانی حکومت پر تنقید بھی کی گئی کہ ناکافی اقدامات کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہوا۔

بعض عہدیداروں نے ان قوانین کی پابندی نہ کرنے والی خواتین کے خلاف حملوں کی حوصلہ افزائی کی اور دیگر طریقوں سے ان کے تحفظ کو خطرہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں پولیس، باسج ملیشیا اور چوکس اخلاقیات پولیس پردے کے قوانین کا نفاذ ممکن بناتی ہے، اکثر خواتین پر تشدد بھی ہوتا ہے، اس میں تیزاب سے حملہ اور قتل بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران میں کس طرح صنفی امتیاز برتا جاتا ہے، شادی، طلاق، روزگار اور ثقافت سمیت قانون اور روزمرہ زندگی میں خواتین کو دوسرے درجے کی شہری سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایران امتیازی قوانین کو منسوخ کرے اور خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن کی توثیق کرے، واضح رہے کہ ایران ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔

Comments

- Advertisement -