جمعرات, ستمبر 19, 2024
اشتہار

یونیسف سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات برداشت کرنے والے اسکول تعمیر کرنے کے لیے متحرک

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی: یونیسف پاکستان کے سربراہ عبداللہ فاصل کا کہنا ہے کہ ہیٹ ویو سے لے کر سیلاب تک موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے بچوں کو بار بار تعلیم سے محروم ہونا پڑ رہا ہے، صوبہ سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات برداشت کرنے والے اسکول تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

تفصیلات کے مطابق یونیسف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے جنوبی حصوں میں مون سون بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی ہے، پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ صوبے سندھ میں 2 لاکھ 30 ہزار بچوں کو تعلیم کی فراہمی معطل ہے، یونیسف نے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کے حامل اسکولوں اور بچوں کی ضروری خدمات میں فوری سرمایہ کاری پر زور دیا۔

یونیسف پاکستان کے سربراہ عبداللہ فاصل نے اس حوالے سے تفصیل بتائی، انھوں نے کہا پاکستان کو پہلے ہی تعلیمی ایمرجنسی کا سامنا ہے اور 26.2 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں، ہمیں امید ہے کہ بارش کا پانی تیزی سے کم ہوگا، اور بچے اپنے کلاسوں میں واپس جا سکیں گے، لیکن اندیشہ ہے کہ اسکولوں کی طویل بندش سے بچوں کی واپسی کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

- Advertisement -

انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے باعث 1300 سے زائد اسکولوں کو نقصان پہنچا ہے، جن میں سے 228 مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، محکمہ تعلیم سندھ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سیلابی پانی جمع ہونے کی وجہ سے 450 سے زائد اسکول کام نہیں کر رہے ہیں، جس کا فوری اثر بچوں کی تعلیم پر پڑے گا۔

عبداللہ فاصل کے مطابق یکم جولائی سے اب تک صوبے بھر میں مون سون کی بارشوں کے باعث 76 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں سے نصف بچے ہیں، صوبہ سندھ میں دریاؤں میں طغیانی سے آبادیاں زیر آب آ گئی ہیں، جس کے نتیجے میں 10 آفت زدہ اضلاع میں ایک لاکھ 40 ہزار بچے اور خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔

انھوں نے کہا یونیسف کی ٹیمیں تیزی سے متاثرہ خاندانوں کی ضروریات کا جائزہ لے رہی ہیں اور تعلیمی سہولیات تک رسائی بحال کرنے اور متاثرین کی جلد بحالی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور طویل مدتی منصوبوں پر حکومت اور مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

سندھ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ تھا، جہاں صحت اور تعلیم کی سہولیات سمیت اہم بنیادی ڈھانچا راتوں رات تباہ ہو گیا تھا، گزشتہ تباہی کے اثرات سے اب تک لڑتے متاثرہ خاندان ایک بار پھر شدید موسم کی زد پر ہیں، جس کی سب سے بھاری قیمت بچوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔

عبداللہ فاضل کا کہنا تھا کہ مون سون نے ایک بار پھر پاکستان بھر میں زندگیاں اُجاڑ دی ہیں۔ بچوں نے اپنی زندگیاں، گھر اور اسکول کھو دیے ہیں۔ ہمیں بچوں کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کی حامل تعلیمی سہولیات اور خدمات میں فوری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار اس ملک میں جدت طرازی، حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیتوں کے فروغ اورنقصانات کو کم سے کم کرنے اور موسمیاتی تغیر کے پیش نظر بچوں کے لیے پائیدار سہولیات ترتیب دینے کے لیے شراکت داروں کا ایک اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

یونیسف کے چلڈرن کلائمیٹ رسک انڈیکس (سی سی آر آئی) میں پاکستان 163 ممالک میں سے 14 ویں نمبر پر ہے، جہاں بچوں کو موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نقصان دہ اثرات کے ’شدید ترین خطرے‘ کا سامنا ہے۔

Comments

اہم ترین

انور خان
انور خان
انور خان اے آر وائی نیوز کراچی کے لیے صحت، تعلیم اور شہری مسائل پر مبنی خبریں دیتے ہیں

مزید خبریں