اپندر ناتھ اشکؔ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں اردو افسانے کا جھنڈا بلند کیے آگے بڑھتے رہے اور ان کے زرخیز ذہن نے خود کو معاشرے کا زبردست نباض ثابت کیا۔ انھوں نے ہندوستانی معاشرے میں خود کو ایک ناصح کے طور پر پیش کیا جس کی کہانیوں پر اخلاقی رنگ غالب رہا۔ افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اپندر ناتھ اشک 1996ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔
اشک نے طویل عرصہ تک اصلاحی کہانیاں لکھیں اور ان کا قلم اپنے وطن کی معاشرت میں خامیوں، اور لوگوں کی کم زوریوں کی نشان دہی کرتا رہا۔ اشکؔ کے موضوعات میں سیاست کو بھی دخل رہا، لیکن یہاں بھی ان کا انداز ناصحانہ ہے اور وہ خرابیوں کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں۔
اپندر ناتھ اشک اردو زبان کے معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس مشہور ہوئے، اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کی۔ ان کا تعلق بھارت سے تھا۔ اشک نے 14 دسمبر 1910ء کو جالندھر میں آنکھ کھولی۔ 1930ء تک لاہور میں رہائش پزیر رہے اور بعد میں ہندوستان چلے گئے تھے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز پنجابی شاعری سے ہوا۔ بعد میں انھوں نے مختلف اخبارات اور رسائل میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کا پہلا ہندی کہانیوں کا مجموعہ جدائی کی شام کے گیت لاہور سے شائع ہوا تھا۔ ایک بڑا عرصہ آل انڈیا ریڈیو میں گزارنے والے اپندر ناتھ اشک جب بمبئی میں رہائش پذیر ہوئے تو وہاں انھیں فلم نگری سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔ ان کا ریڈیو سے بڑا گہرا تعلق رہا اور وہاں ان کے کئی ریڈیائی ڈرامے اور اسکرپٹ کام یاب ہوئے اور ان کا یہ تجربہ فلموں کی کہانیاں اور اسکرین پلے تحریر کرنے میں معاون رہا۔
اپندر ناتھ اشک اپنی تحریروں میں پنجاب کی روزمرہ دیہی زندگی کی عکاسی بڑے خوب صورت انداز میں کرتے ہیں۔ افسانہ نگاری میں ان کی مضبوط گرفت اور زبان کی روانی بہت متاثر کن ہے۔ اشک کے افسانوں میں پاپی، کونپل، پلنگ اور ڈراموں میں ‘چھٹا بیٹا، انجو دیدی اور قید بہت مشہور ہوئے۔
اشک نے 85 سال کی عمر میں الٰہ آباد میں وفات پائی۔
ان کے بارے میں معروف براڈ کاسٹر، محقّق اور مصنّف رضا علی عابدی نے ایک مضمون میں لکھا تھا:
"یہ میرا بی بی سی لندن کی اردو سروس کا زمانہ تھا۔ اپندر ناتھ اشک الہٰ آباد سے چل کر لندن آئے اور بی بی سی کی تاریخی عمارت’بُش ہاؤس‘ میں تشریف لائے۔ اسی ادارے کی ہندی سروس میں ان کا بیٹا نیلابھ کام کرتا تھا، اس سے کہا کہ مجھے رضا علی عابدی سے ملواؤ۔ وہ باپ کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لے آیا۔ یوں لگا جیسے بچپن میں اکٹھے کنچے کھیلنے والا کوئی دوست چلا آیا ہو۔ میں نے چاہا قدموں میں بیٹھوں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سَر پر بٹھالیں۔”
"واپس الہ آباد چلے گئے مگر وہاں کی خبریں ملتی رہیں۔ پتہ چلا کہ اپندر ناتھ اشک کی کتابوں کی فروخت برائے نام رہ گئی ہے اور یہ کہ بددیانت افسر سرکاری اداروں کے لیے ان کی کتابیں نہیں خرید رہے۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی مگر کوئی اثر نہ ہوا، یہاں تک کہ اتنے بڑے شاعر اور ادیب کی مالی حالت جواب دینے لگی۔ وہ ٹھہرے سدا کے ادیب اور شاعر۔ معاشرے کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے باہر آٹے دال کی دکان کھول لی تاکہ اخباروں میں سرخی لگے کہ سرکردہ ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھول لی۔ یہی ہوا۔ اخباروں کو چٹپٹی خبر مل گئی۔ کیسا عجب اتفاق ہوا کہ میں اپنے پروگرام ’جرنیلی سڑک‘ کی تیاری کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے دورے پر نکلا۔ چونکہ الہ آباد اسی سڑک پر واقع ہے، ایک صبح میں نے خود کو اپندر ناتھ اشک کے گھر پر پایا۔ باہر پرچون کی دکان کھلی ہوئی تھی اور ان کی بیگم کوشلیا سودا سلف بیچ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر کھل اٹھے اور بہت پیارا انٹرویو ریکارڈ کرایا۔”