ملک کی مڈل کلاس ہمیشہ اچھی نوکری کے حصول کو ترجیح دیتی ہے ان کے مسائل سے سب ہی واقف ہیں جبکہ اس کی نسبت اپر مڈل کلاس کی مشکلات اور مسائل بھی علیحدہ نوعیت کے ہوتے ہیں۔
اس کلاس کو غریب لوگ اسے مالی طور پر اپنے سے بہتر سمجھتے ہیں جبکہ امیر طبقہ اسے اپنے سے کم سمجھتا ہے۔
بظاہر تو لگتا ہے کہ اس اپر مڈل کلاس کو شاید کوئی مالی مشکلات نہ درپیش ہوں لیکن مالی حالات نے سب کو ایک صف میں لاکھڑا کیا ہے، ان کے مسائل بھی دوسرے طبقات سے مختلف نہیں رہے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں ایک اپر مڈل کلاس فیملی جو میاں بیوی اور دو بچوں پر مشتمل ہے سے خصوصی ملاقات کی گئی اور ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کی۔
کراچی کے ایک پوش علاقے سے تعلق رکھنے والے عامر اور ان کی اہلیہ ماروی عامر سے ملاقات کے دوران ان کی آمدنی اور اخراجات سے متعلق کھل کر بات چیت کی گئی اور مہینے میں ہونے والی بچت سے متعلق بھی سوالات کیے۔
ایک سوال کے جواب میں ماروی عامر نے بتایا کہ ویسے تو میرے شوہر ہی کماتے ہیں اور میں بھی آن لائن کام کرکے تھوڑی بہت آمدنی کرلیتی ہوں مجموعی طور پر تقریباً ماہانہ چار لاکھ تک کی آمدنی ہوجاتی ہے۔
اخراجات سے متعلق ماروی عامر نے بتایا کہ مہنگائی واقعی بہت زیادہ ہوگئی ہے، گزشتہ سال کی اس سال مہنگائی دوگنی ہوگئی ہے، ہمارے کچن کا ماہانہ خرچ 40 ہزار روپے ہے اس میں گوشت اور سبزی شامل کی جائے تو 80 ہزار روپے تک ہوجاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دو بچوں کے اسکول کی فیس ان کی ٹرانسپورٹیشن اور پڑھائی کے دیگر اخراجات ایک لاکھ 20 ہزار تک ہیں، گھر کے کام کیلیے دو ملازمائیں ہیں جن کی تنخواہ 20 ہزار روپے ہے۔
اس موقع پر گھر کے سربراہ عامر نے بتایا کہ بجلی کا بل 50 ہزار تک آتا ہے جبکہ 7 ہزار روپے گیس اور پانی کا بل آجاتا ہے، گھر اور گاڑی مینٹیننس کے علاوہ ڈرائیور کی تنخواہ 30 ہزار روپے ہے۔
عامر کا کہنا تھا کہ اس مالی سال کے بجٹ کے بعد ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا کہ آمدنی میں اضافہ ہو یا نہ ہو اخراجات میں اضافہ ضرور ہوگا اور اسی بات کو مد نظر رکھنے ہوئے گھر کا بجٹ بھی بنانا ہوگا۔