تقسیمِ ہند اور اس موقع پر لاکھوں انسانوں کی ہجرت ایک ایسا موضوع ہے جس پر اردو ادب میں کئی ایسی تخلیقات سامنے آئیں جو اُس دور کی سیاسی، معاشی اور سماجی تاریخ کے ساتھ اُس وقت کے حالات کی لفظی جھلکیاں اور عکس ہیں۔
پاک و ہند کے ادیبوں نے تقسیم اور ہجرت کے موضوع پر کئی افسانے، کہانیاں اور ناول لکھے اور یہ تخلیقات نہایت پُراثر اور درد ناک ہیں۔ برصغیر کی تاریخ اور خاص طور پر تقسیم اور ہجرت کے موضوع میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس حوالے سے چند ادیبوں اور ان کی تخلیقات کا تذکرہ پیش ہے۔
اردو ادب میں اگر اس دور سے جڑے انسانی المیوں کی حقیقی لفظی جھلکیاں کسی نے پیش کی ہیں تو وہ سعادت حسن منٹو ہیں۔
اردو کے اس مشہور ادیب کی تحریروں کا مجموعہ ’سیاہ حاشیے‘ ان مختصر کہانیوں پر مشتمل ہے جو ظلم اور ناانصافی کے ماحول کی مؤثر تصویر کشی کرتی ہیں۔
تقسیم کے پس منظر میں انھوں نے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ جیسا افسانہ لکھا جسے کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔
پاکستان کے نام ور ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے بھی اس دور کے فسادات کو موضوع بنایا۔
اسی طرح شوکت صدیقی، ڈاکٹر انور سجاد، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد نے بھی افسانے، کہانیاں اور ناولوں میں تقسیم اور ہجرت کے المیوں، خوشی اور دکھ کی مختلف کہانیاں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔
متحدہ ہندوستان اور اُس سماج کی مختلف شکلیں عبداللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘ اور قرۃ العین حیدر کے ’آگ کا دریا‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں جو دراصل ہندوستان کی قدیم تاریخ کے ساتھ ساتھ کئی انسانی المیوں کی داستان ہے۔
اُس زمانے کے سیاسی اور سماجی حالات کی لفظی عکاسی کے ساتھ ساتھ مختلف واقعات کو ہمارے سامنے پیش کرتی تخلیقات میں ’کفن دفن، فساد، اندھیرا اور اندھیرا، ہفتے کی شام، لاجونتی، پشاور ایکسپریس، امرتسر اور لال باغ‘ بھی شامل ہیں۔