اردو زبان و ادب میں اپنی تخلیقی کاوشوں اور علمی خدمات کی وجہ سے ممتاز اور نمایاں مقام حاصل کرنے والوں میں ایک نام مجنوں گورکھپوری کا بھی ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔
مجنوں گورکھپوری 1988 میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوئے تھے۔ وہ اردو کے ممتاز نقاد، محقق، مترجم، شاعر اور افسانہ نگار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔
ان کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ 10 مئی 1904 کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھپور میں آنکھ کھولنے والے مجنوں گورکھپوری ماہرِ تعلیم بھی تھے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ کراچی سے بحیثیت استاد وابستہ رہے۔
مجنوں گورکھپوری اردو کے چند بڑے نقادوں میں سے ایک تھے۔ ان کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، شعر و غزل سرِفہرست ہیں۔ وہ افسانہ نگار بھی تھے اور ان کی نگارشات خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت کے نام سے کتابی شکل میں شایع ہوچکی ہیں۔
مجنوں گورکھپوری نے جہاں اردو ادب کو تنقید سے مالا مال کیا اور اسے نکھارنے کے لیے دماغ سوزی کی، وہیں انگریزی ادب کو بھی اردو تراجم کے ذریعے قارئین تک پہنچایا۔
شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو مجنوں گورکھپوری نے اردو کے قالب میں ڈھالا جو ان کا بڑا کام ہے۔
مجنوں گورکھپوری کی آخری آرام گاہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں ہے۔