تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

کس احمق نے آپ کو اس جگہ بٹھایا ہے؟

سندھی ادبی بورڈ میں میرا واسطہ سب سے زیادہ پیر حسام الدین راشدی سے پڑا۔

میری اس نئی ملازمت کو دو چار ہی دن گزرے تھے کہ بورڈ میں ایک صاحب تشریف لائے۔ سوٹ بوٹ میں ملبوس، ہیٹ سَر پر، نفاست پسندی چہرے اور مہرے سے عیاں، پیکرِ شرافت و سیادت، کچھ کتابیں بغل میں دبائے ہوئے میری میز کے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ کتابیں میز پر رکھ کر کہنے لگے جہاں جہاں میں نے نشان ڈالے ہیں براہِ کرم آپ ان اقتباسات کو نقل کردیجیے، مگر غلطی بالکل نہ ہو، تین چار روز میں مجھے یہ کام ختم کرکے دے دیجیے۔

پیر حسام الدین راشدی کا نام اور ان کے کتب خانے کی شہرت میں نے سب سے پہلے مولوی عبدالحلیم چشتی سے سنی تھی، جب میں مولانا احتشام الحق تھانوی کے یہاں اپنی ہجرت کے شروع زمانے میں پندرہ دن کے لیے ملازم ہوا تھا۔ وہ ہر بات میں کہتے تھے کہ میں نے یہ کتاب راشدی صاحب کے کتب خانے میں دیکھی ہے۔

میرے ذہن میں راشدی صاحب کی جو تصویر ابھرتی وہ عبا و قبا، جبّہ و دستار اور مریدین کی فوج ظفر موج کے ساتھ ابھرتی تھی، لیکن آج پہلی مرتبہ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ تو پیرِ طریقتِ جدید ہیں۔

چند روز کے بعد وہ پھر آئے اور میری میز کے سامنے کھڑے ہوکر کہا،
"غالباً آپ نے وہ مسودات تیار کر دیے ہوں گے۔”
میں نے کہا جی ہاں وہ تیار ہیں۔ پھر وہ انہیں عقاب کی نظر سے دیکھتے رہے۔ میں نے ان کے چہرے پر طمانیت کے آثار پائے۔ ان تمام مسودات کا انہوں نے بغور جائزہ لیا اور پھر کہنے لگے۔

"آپ کو کس احمق نے اس جگہ پر بٹھایا ہے، آپ تو اس قابل ہیں کہ مسودات کو ایڈٹ کریں۔”

میں نے کہا، "اس جگہ مجھ کو میری قسمت نے بٹھایا ہے۔ آپ چاہیں تو بورڈ میں میری صلاحیتوں کی تصدیق کرکے میری ترقی کی سفارش کریں۔”

راشدی صاحب نے کہا کہ میں ضرور آپ کی سفارش کروں گا۔ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور دو ماہ کے بعد میری تنخواہ 120 روپے ہوگئی۔

میں پہلی مرتبہ جمشید روڈ پر کسی سرکاری کام سے ان کے گھر گیا۔ بڑے تپاک سے ملے اور چلتے ہوئے رکشا کرایا پیش کیا۔ ہر چند میں نے انکار کیا، مگر ان کا اصرار بڑھتا گیا۔ آخر میں نے یہ کہہ کر رکھ لیے کہ یہ پیروں کا تبرک ہے، اس لیے انکار کرتے نہیں بنتی۔

تکلف اور افسری ماتحتی کی حدود ٹوٹی، بے تکلفی اور دوستی ان کی جگہ لیتی گئی۔ یہاں تک کہ ہم دونوں اس منزل میں آگئے کہ جہاں ہماری دوستی علمی دنیا میں مشہور ہوگئی۔ ہم نے دوستی اور افسری و ماتحتی کے خانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرلیا تھا جو ایک دوسرے پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔

(معروف ادیب، محقق، مترجم اور شاعر اعجاز الحق قدوسی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب سے ایک ورق)

Comments

- Advertisement -