تازہ ترین

مسلح افواج کو قوم کی حمایت حاصل ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

ملت ایکسپریس واقعہ : خاتون کی موت کے حوالے سے ترجمان ریلویز کا اہم بیان آگیا

ترجمان ریلویز بابر رضا کا ملت ایکسپریس واقعے میں...

صدرمملکت آصف زرداری سے سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات

صدر مملکت آصف علی زرداری سے سعودی وزیر خارجہ...

خواہش ہے پی آئی اے کی نجکاری جون کے آخر تک مکمل کر لیں: وفاقی وزیر خزانہ

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا...

کسی نوجوان کے اداس ہونے کی صرف دو وجوہ ہو سکتی ہیں!

بخاری صاحب کا ان دنوں عالمِ شباب تھا۔ پینتیس سال کے قریب عمر ہوگی، دراز قد، گھنی بھنویں، سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبوترا چہرہ، شکل و شباہت کے اعتبار سے وہ افغان یا ایرانی دکھائی دیتے تھے۔

ریشمی گاؤن پہن کر کلاس روم میں آتے تھے۔ حاضری لیے بغیر لیکچر شروع کیا کرتے، عموماً لیکچر سے پہلے اپنے عزیز شاگردوں سے دو ایک چونچیں ضرور لڑایا کرتے تھے۔ بلراج ساہنی مشہور ہندوستانی اداکار، ان کا عزیزترین شاگرد تھا۔ اکثرایک آدھ فقرہ اس پر کستے تھے۔

’’کیا بات ہے ساہنی، آج کچھ کھوئے کھوئے نظر آتے ہو، جانتے ہو جب کوئی نوجوان اداس رہتا ہے تو اس کی اداسی کی صرف دو وجہیں ہوتی ہیں یا وہ عشق فرمانے کی حماقت کر رہا ہے یا اس کا بٹوہ خالی ہے۔‘‘

لیکچر کسی کتاب یا نوٹس کی مدد کے بغیر دیتے تھے۔ انگریزی کا تلفظ ایسا تھا کہ انگریزوں کو رشک آتا تھا۔ فرسودہ یا روایتی اندازِ بیان سے چڑ تھی۔ غلطی سے بھی کوئی عامیانہ فقرہ ان کی زبان سےنہیں نکلتا تھا۔

ڈراما پڑھانے میں خاص کمال حاصل تھا۔ ہملیٹ پڑھا رہے ہیں تو چہرے پر وہی تأثرات پیدا کرلیں گے جو موقع محل کی عکاسی کرتے ہوں۔ کنگ لیر پڑھاتے تو معلوم ہوتا، کہ طوفانوں میں گھرا ہوا بوڑھا شیر غرا رہا ہے۔ شیکسپیئر کے مشہور کرداروں کی تقریریں زبانی یاد تھیں، انھیں اس خوبی سے ادا کرتے کہ سامعین کو پھریری سی آجاتی۔

حافظہ غضب کا پایا تھا، اکثر جب کوئی نئی کتاب پڑھتے تو دوسرے دن کلاس روم میں اس کا خلاصہ اتنی صحت کے ساتھ بیان کرتے کہ لیکچر سننے کے بعد محسوس ہوتا کتاب انھوں نےنہیں ہم نے پڑھی ہے۔

ایک بار فرانسیسی فلسفی برگساں کی کتاب ’’مزاح‘‘ کی وضاحت فرماتے وقت انھوں نے طنز و مزاح سے متعلق بہت دل چسپ باتیں بتائیں۔

فرمایا۔ انسان ہی صرف ہنسنے والا جانور ہے۔

میں نے کہا، جناب بندر بھی ہنستا ہے۔

ہنس کر فرمایا، کیوں کہ وہ انسان کا جدِ امجد ہے۔

بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ ہنسنے کے لیے عقل کا ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوقوف کو لطیفہ سنانا تضیعِ اوقات ہے۔ اگرایک آدمی کیلے کے چھلکے سے پھسل پڑے تو دوسرے اس پر ہنستے ہیں، لیکن اگر ایک بھینس کیلے کے چھلکے سے پھسل کر کیچڑ میں گر پڑے تو باقی بھینسیں اس پر کبھی نہیں ہنسیں گی، کیوں کہ بھینس کے پاس عقل نہیں ہوتی، تبھی تو یہ محاورہ ایجاد ہوا، عقل بڑی یا بھینس۔۔۔۔

معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے مضمون پیرومرشد سے انتخاب

Comments

- Advertisement -