یہ ایک ایسے جوڑے کی داستان ہے جسے ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ یہ میاں بیوی ایک معیاری ادبی پرچہ نکالتے ہیں اور بہت محنت کر کے اسے منفرد اور بے مثل تخلیقات سے سجاتے ہیں۔ لیکن پھر انھیں احساس ہوتا ہے کہ ان کے کام کی قدر اور پذیرائی نہیں ہو رہی اور اس کام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
یہ افسانہ خاص طور پر اُن لوگوں کی دل چسپی اور توجہ حاصل کرے گا جو ادب اور ادبی تخلیقات کی نشر و اشاعت سے منسلک ہیں، لیکن عام قارئین بھی زندگی کی حقیقت اور معاش کے لیے تگ و دو کرتے ایک جوڑے کی خواہشات اور ان کو درپیش مشکلات پر مبنی اس کہانی کے ان پاروں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
یہ افسانہ اپنی نگریا کے عنوان سے ممتاز شیریں نے لکھا تھا، جنھیں ہم ایک نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے بھی جانتے ہیں۔ ممتاز شیریں 11 مارچ 1973ء کو وفات پاگئی تھیں۔ افسانہ نگار ممتاز شیریں نے زندگی کی صداقتوں کو اپنے خوب صورت اسلوب میں ڈھال کر قارئین تک پہنچایا جس کی ایک مثال یہ کہانی بھی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
شاہد نے قفل کھولا اور وہ دونوں آفس روم میں داخل ہوئے۔ ایک چھوٹی سا ایڈیٹر کا آفس اور ایڈیٹر فیروزی دھاری دار شرٹ اور سرمئی اُونی پتلون پہنے کتنا سجیلا لگ رہا تھا۔ دفتر گھر پر ہی تھا۔ لیکن آفس روم میں جانے سے پہلے وہ ہمیشہ ڈریس کر لیا کرتا تھا۔ ’’کیا ہوا اگر دفتر گھر ہی پر ہے۔ میں آفس ہی کو تو جا رہا ہوں۔‘‘، وہ ساکس چڑھاتے ہوئے ہنس کر کہتا، ’’ڈریس کر لوں تو ایک طرح کی پھرتی آ جاتی ہے اور میں اچھی طرح کام کر سکتا ہوں۔‘‘
وہ پتلون کی جیب میں ہاتھ رکھے ایک پاؤں پر بوجھ ڈالے کھڑا باہر دیکھ رہا تھا۔ کھڑکی سے باہر کا منظر اچھی طرح دکھائی دیتا تھا۔ کھلا میدان اور سڑک کے کنارے شوخ سرخ پھولوں سے لدے گل مہر کے درختوں میں آگ سی لگی تھی۔ شفاف نیلے آسمان پر کہیں کہیں سفید بدلیوں کے ٹکڑے تیر رہے تھے۔ بڑی روشن صبح تھی۔ کھڑکی کے دودھیا شیشوں میں سے چھنتی ہوئی ہلکی روشنی میں اس کی سبز آنکھیں نیلی جھلک مار رہی تھیں۔ فیروزی دھاری دار شرٹ اور فیروزی آنکھیں جیسے وہ نیلی دھاریاں ان خوبصورت نیلی آنکھوں سے میچ کرنے کے لیے ڈالی گئی ہوں۔ وہ ایک جذبۂ پرستش کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔
وہ جب بالکل بچی تھی۔ دس گیارہ سال کی اور انہیں دنوں اسے کافی شعور آ گیا تھا۔ وہ ان دنوں ’پھول‘، ’غنچہ‘ نہیں پڑھا کرتی تھی۔ بلکہ ’نیرنگ خیال‘، ’ساقی‘ اور ’ہمایوں ‘، ’مدینہ‘ اور ’انقلاب‘ نصر اللہ خاں عزیز کے سرراہے اور سالک کے ’افکار و حوادث‘ سے اسے بڑی دلچسپی تھی۔ ان دنوں وہ کس شدت کے ساتھ محسوس کرتی تھی کہ ایڈیٹر ہونا بھی کتنی بڑی بات ہے۔ اسے ایڈیٹر سے، کسی شخصیت سے نہیں، ایک طرح کی عقیدت سی ہو گئی تھی۔ ایک عجیب طرح کا ایڈمریشن! اور وہ سوچتی تھی۔ جب بڑی ہوگی تو۔۔۔ لیکن کیا اس کے پاس اتنے روپے ہوں گے کہ وہ خود رسالہ نکال سکے؟ یا لیکن یہاں اچھے رسائل ہیں کہاں کہ وہ ان کے دفتر میں کام کر سکے؟ لیکن کبھی کبھی دلی تمنائیں کیسے، عجیب، انجانے طور پر، بر آتی ہیں! وہ اب ایک خوبصورت معیاری رسالے کی آفس میں کھڑی تھی۔
یہ لڑکی ناز نسرین نہ ٹائپسٹ یا اسٹینوگرافر تھی نہ ایسوسی ایٹ ایڈیٹر، نہ سکریٹری بلکہ وہ ان کی بیوی تھی۔ وہ میز پر انگلیاں بجانے لگا اور شریر چمکیلی نظروں سے اسے دیکھ کر بولا، ’’میناکا!‘‘ نسرین نے مصنوعی غصہ سے منہ پھلا لیا۔ ’’ہاں، میں صرف میناکا کی طرح ٹمپٹ (Tempt) کرتی ہوں نا۔ تمھاری ذرا بھی مدد نہیں کرتی۔‘‘
’’کرتی ہو نا، نازی، سچ، تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو مجھے کتنی دشواری ہوتی، پھر وہ پیار میں ڈوبی آواز میں کہنے لگے، ’’تم صحیح معنوں میں جیون ساتھی ہو، میری نازی، میری ہم ذوق، میرے ارادوں میں، میرے کام میں ساتھ دینے والی!‘‘ ایک نشیلی کیفیت کے زیر اثر وہ بادامی پپوٹے جھک آئے لانبی گھنی پلکیں جھیل کے پانیوں کی سی سبز پتلیوں کو چومنے لگیں۔ ان خوبصورت بھیگی ہوئی آنکھوں کی مقناطیسی چمک سے کھنچی، میں کچھ دیر وہیں کھڑی رہی پھر میز کے اس طرف آکر شوخی سے خطوں کا پلندہ ان کی طرف پھینکتی ہوئی بولی، ’’ابھی تو کہہ رہے تھے کام بہت کرنے ہیں۔‘‘
’’افوہ کتنے خطوط کے جواب دینے ہیں ابھی!‘‘ وہ چونک پڑے۔ ’’ایک دو روز خط نہ لکھیں تو کتنے جمع ہو جاتے ہیں۔‘‘ وہ خطوں کو سرسری طور پر دیکھنے لگے۔ ’’اس ایجنسی کو مزید پرچے بھجوا دیے تم نے؟‘‘ انہوں نے ایک خط بتاکر پوچھا۔ ’’بھجوا دیے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ وہ پھر خطوط دیکھنے لگے۔
شاہد کو کام کا احساس دلاکر وہ خود کسی تصویر میں کھو گئی۔ ’’تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو۔۔۔‘‘ شاہد کے ایک خط کے الفاظ اسے یاد آنے لگے۔ ان دنوں وہ اپنے میکے میں تھی اور خط آیا تھا۔ ’’نیا دور‘‘ کا تازہ نمبر نکل گیا ہے اور تم جانتی ہو ان دنوں کتنا کام ہوتا ہے۔ ڈھیروں کام سامنے پڑا ہے اور تم یہاں نہیں ہو، یہ کہنے سے میرا مطلب یہ نہیں کہ میں تم سے بھی کام لینا چاہتا تھا۔ لیکن میری نازی میری اپنی نازی، تم یوں ہی میرے سامنے بیٹھی رہو۔ تو میں دگنا تگنا کام کر سکتا ہوں۔ صرف تمہاری موجودگی مجھ میں گویا ایک بجلی سی بھر دیتی ہے۔ میں خوشی میں سرشار رہتا ہو ں اور کام ہلکا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اب میرا من اداس ہے، دل پر ایک بوجھ سا رہتا ہے، کام بہت بھاری معلوم ہوتا ہے۔۔۔‘‘ لیکن وہ یوں ہی نہیں بیٹھی رہتی تھی۔ وہ بھی اس کے ساتھ کام کیا کرتی۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ کام کرتے۔ کبھی خطوط لکھ رہے ہوتے، مضامین پڑھ کر انتخاب کر رہے ہوتے۔ ٹائیٹل پیج کے لیے ڈیزائن تجویز کر رہے ہوتے۔ رنگوں کی آمیزش پر بحث کر رہے ہوتے، پروف دیکھ رہے ہوتے، اعزازی پرچے بھیج رہے ہوتے۔ خریداروں اور ایجنسیوں کو پرچے پیک کراکے بھجواتے، آمد و خرچ کا اندراج اور پھر حساب پھر خطوط خطوط ہر روز بیسیوں خطوط! وہ چھوٹے چھوٹے کام بھی بڑی دلچسپی سے آپ ہی کیا کرتی۔ رسیدوں کی پرانی کتاب بھر گئی تھی۔ وہ چپکے سے انڈین لسنر کی کاپیاں اٹھالائی، اندر کے پونے پونے صفحے کاٹ ڈالے اور ان کاپیوں میں منی آرڈر، وی پی اور رجسٹریوں کی رسیدیں چپکا رہی تھی۔ شاہد چپکے سے اس کے بالکل پیچھے آ کھڑا ہوا۔ اس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یوں ہی مسکراتی رہی۔ ’’ارے، یہ سب تم کیوں کرتی ہو، جانی، تھک جاؤ گی، دوسرے کام ہی کیا کم ہیں تمہارے لیے۔‘‘ ’’مجھے پسند ہیں یہ کام‘‘ ’’سچ؟‘‘ ’’ہاں‘‘ شاید عورتیں میکانیکل کام بھی دلچسپی سے کر سکتی ہیں۔ اسی لیے شاید، اسٹینو گرافرز اور سکریٹری زیادہ تر لڑکیاں ہی ہوتی ہیں۔ میں کبھی بڑا آدمی ہو جاؤں، تو تمہیں کو سکریٹری بناؤں گا، بنو گی؟‘‘ شاہد نے ہلکے سے اس کے بالوں کو تھپکتے ہوئے کہا۔ وہ خوشی سے معمور آواز میں بولی، ’’ایم این رائے کی بیوی۔ ملین رائے کی طرح میں شارٹ ہینڈ سیکھوں گی۔ ٹائپ کرنا سیکھوں گی اور پھر۔۔۔‘‘ ’’اور میری ناز سی، نازی‘‘ شاہد نے اسے گھما دیا۔ پھر یک دم سے اسے چھوڑ کر کرسی پر جا بیٹھا اور بے تحاشا ہنسنے لگا۔ ’’آخر کیوں؟‘‘ نسرین نے پوچھا، ’’تم تو ایسے یقین سے کہہ رہی ہو جیسے میں سچ مچ بڑا آدمی بن جاؤں گا۔ میں تو یوں ہی مذاقاً کہہ رہا تھا۔ اچھا اب آؤ، دیکھو مختلف رنگوں میں پرنٹ کرا کے چند کور پیج لے آیا ہوں، دیکھو کون سی انک (Ink) ٹھیک بیٹھتی ہے۔‘‘
وہ یونہی ہنستے کھیلتے کام کیا کرتے۔ لیکن کبھی کبھی اتنا کام رہتا کہ وہ بالکل تھک جاتے۔ خصوصاً پرچہ نکلنے سے چند دن پہلے اور چند دن بعد تو بہت ہی زیادہ کام رہتا، وہ چھوٹے سے ایڈیٹر تھے۔ پرچہ ابھی ابھی نکلا تھا۔ ان کے دفتر میں نوکر اور کلرک اور منیجر اور ایڈیٹر نہیں تھے۔ بعض سرمایہ دار ’’ایڈیٹر‘‘ تو ایڈٹ بھی دوسروں سے کرواتے ہیں، مگر بہت سارا کام وہ خود ہی کیا کرتے۔ شاہد اور وہ۔ ’’نیا دور‘‘ کو انہوں نے محنت سے پالا پوسا، پروان چڑھایا، شاید اسی لیے انہیں ’’نیا دور‘‘ سے اس قدر محبت تھی!
آج کل، آج کل کے وعدوں سے پریشان کر کے کاتب آخرکار کتابت ختم کرتے۔ طباعت کے لیے پھر وہی وعدے۔ آخر تنگ آکر وہ ان دنوں کورٹ جانا بھی چھوڑ دیتا اور دن بھر دونوں پریس کا چکر کاٹتا رہتا۔ کور پیج کی پرنٹنگ ایک پریس میں ہوتی تھی اور فارموں کی کتابت اور طباعت دوسرے پریس میں۔ ایک سٹی میں تھا تو دوسرا چھاؤنی میں۔ میلوں دور۔ ’’کور پیج چھپ گئے؟‘‘ ’’نہیں‘‘ ’’کور کارڈ اور بلاک اور اشتہارات کے مضمون تو ہفتوں پہلے آپ کو دیے گئے تھے!‘‘ ’’کورس کاٹ دیے گئے۔‘‘ ’’صرف کاٹ رکھے ہیں؟ بلاک نہیں چھپے؟‘‘ ’’نہیں‘‘ اور ’’اشتہار؟‘‘ ’’اشتہار بھی نہیں‘‘ اور وہ سر پکڑ وہیں بیٹھ جاتا، جب تک پورے کور تیار نہ ہوجائیں وہ وہیں بیٹھا رہے گا۔ سب کچھ بڑے انہماک سے آپ ہی انتخاب کر کے چھپواتا تھا، پھر سائیکل تیزی سے چلاتا وہ چھاؤنی جا پہنچتا۔
’’بڑی مشکل سے ایک فارم چھپوا کے آیا ہوں، نازی۔‘‘ وہ آتے ہی صوفے پر گر پڑا اور مایوسانہ لہجہ میں کہا۔ دن بھر کی سائکلنگ سے تھک کر چور، پسینہ میں شرابور تھکا ہوا جسم اور تھکا ہوا دماغ لیے! ’ابھی آدھا کام بھی نہیں ہوا، پھر کل جانا ہوگا۔ یہ پریس والے بھی کتنا دق کرتے ہیں۔‘‘ ’’بستر لگا دوں گی، چل کر کچھ دیر سو رہو، بہت تھک گئے ہو۔‘‘ ’’نہیں بستر پر سوؤں گا تو بہت دیر سو جاؤں گا۔ یہیں چند منٹ آنکھیں بند کرے پڑے رہوں گا، نیند لگ جائے تو اٹھا دینا۔ آخری دو فارم لے آیا ہوں۔ پروف دیکھنا ہے، اٹھا دو گی نا؟ کل نہ لوٹا دوں تو چھاپنے میں اور دیر کر دیں گے۔ کتنا شدید درد ہو رہا ہے سر میں۔‘‘ وہ اسے نہیں اٹھائے گی، وہ سوچتی اور آہستہ آہستہ اس کا سر دبانے لگتی۔ شاہد کو نیند سی آ جاتی۔ پھر وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا۔ ’’میں بہت دیر سو تو نہیں گیا۔‘‘
’’ارے دس منٹ ہی تو ہوئے ہیں۔ تم سو جاؤ، میں کسی سے پڑھوا کر تصحیح کر دوں گی۔‘‘
’’نہیں نازی، جانے وہ کس طرح پڑھیں گے۔ کاما، ڈاٹس، حرف کے نقطے اور بہت ساری چیزیں مثلاً مسودے میں کتنی جگہ چھوڑ کر دوسراحصہ شروع کیا گیا ہے، یہ سب کچھ دیکھنا چاہیے۔ تم پڑھو تو میں تصحیح کر دوں گا۔ بیگ میں سے فارم نکال لو، مسودے بھی وہیں ہیں۔‘‘
اب انہیں رومان کے لیے پہلے کی طرح وقت نہ ملتا تھا۔ لیکن ان کی محبت اب روحانی طور پر اتنی گہری ہو گئی تھی کہ دفتر میں بیٹھے کام کرتے ہوئے بھی ہر لمحہ اس محبت کا شدید احساس ہوتا۔ وہ مقابل کی کرسیوں پر بیٹھے ہوتے، ان کی درمیان ایک لانبی سی میز پڑی ہوتی، ہاتھ کام کر رہے ہیں، نگاہیں کاغذوں پر لگی ہیں۔ لیکن پھر بھی ایسے محسوس ہوتا جیسے اس میز کے اوپر سے ان کے دلوں کے درمیان، محبت کی دھارا بہہ رہی ہے۔ وہ سر اٹھا کر دیکھتی۔ شاہد کے چہرے پر پسینے کی بوندیں آ جمی ہیں۔ اس کے بال پریشان ہوکر پیشانی پر آ پڑے ہیں۔ وہ تھکا ہوا ہے، وہ چپکے سے اٹھ کر اندر چلی جاتی اور چائے لے آتی۔ اس کے بال ہٹا کر ایک مادرانہ شفقت سے اس کی پیشانی چوم کر کہتی، ’’چائے پی لو، بہت تھک گئے ہو۔‘‘ وہ چپکے سے اس کا ہاتھ اٹھا کر آنکھوں سے لگا لیتا۔ چائے پی کر وہ تازہ دم ہو جاتے اور پھر اپنے کام میں مشغول ہو جاتے۔ نسرین کو یہ زندگی بہت پسند تھی۔
’’خط ایسے کوئی ضروری تو نہیں۔‘‘ شاہد نے خطوں کو پرے رکھتے ہوئے کہا، ’’آئندہ پرچے کی ترتیب دے دیں گے۔‘‘ ’’ابھی سے؟‘‘
’’ہاں، پچھلا پرچہ نکل کر کتنے دن ہو گئے۔ آج اتوار ہے کل پھر مجھے کورٹ جانا ہوگا اور کاتب کو ان دنوں فرصت بھی ہے، ورنہ درسی کتابوں کا کام شروع ہو جائے تو بڑی مشکل ہوگی۔ اب بھی کافی دیر ہو گئی ہے۔ آئندہ سے ہمیں ایک پرچہ نکلنے کے پہلے ہی دوسرا مرتب کرکے کتابت کے لیے دے دینا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’اچھا وہ مضامین والی فائل نکال دو، میں آئے ہوئے مضامین کی فہرست بناؤں گی۔‘‘ انہوں نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے یوں ہی ذرا سا پیچھے کو جھک کر الماری میں سے ایک فیروزی فائل نکال لی، میں نے ہاتھ بڑھا کر فائل لے لی اور فہرست بنانے لگی۔ وہ مضامین جو انتخاب میں لے لیے گئے تھے۔ پھر وہ مضامین جو زیر غور تھے۔ ناقابل اشاعت مضامین تو پہلے ہی سے الگ کرکے دوسری فائل میں ڈالے جا چکے تھے۔ فہرست تیار کرکے میں نے ان کے ہاتھ میں دے کر کہا، ’’وہ خطوط ادھر بڑھا دو۔ میں ان کے جواب لکھ دوں۔‘‘
’’خطوط کی ایسی کیا جلدی ہے۔ تم کل بھی لکھ سکتی ہو، آج مجھے چھٹی ہے، ترتیب دے دیں گے، مضامین کی فائل ادھر بڑھا دو۔ میں پہلے یہ اندازہ لگا لوں، مضمون کتنے کتنے صفحوں میں آئیں گے اب تو ہمیں پیپر کنٹرول آڈر کے تحت ۱۶۰ صفحوں سے بڑھنے کی اجازت نہیں۔‘‘ میں نے فائل دے دی۔
شاہد مضامین نکال کر صفحات گننے لگا۔ تب تک وہ بیٹھی کیا کرے؟ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا میز پر کوئی کتاب رکھی ہو تو لے کر پڑھے۔ میز کے آخری کونے پر ننھا سا ایک روالونگ شلف رکھا تھا، دیکھیں اس میں نئی کام کی کتاب نکل آئے۔ وہ پیچھے کے شیلفوں میں سے کوئی کتاب لانے کے لیے اٹھی تو بید کے ٹرے کی اوٹ میں میز پر تازہ ساؤنڈ، پڑا دکھائی دیا، ٹائیٹل پیج پر دیاز لنگ نیو فائنڈ بیگم پارہ کی تصویر تھی۔ اس نے ساؤنڈ اٹھا لیا اور یونہی ورق الٹ پلٹ کر تصویریں دیکھنے لگی۔
’’تصویریں کیا دیکھ رہی ہو، نازی، عباس کا آرٹیکل پڑھو۔‘‘ جانے انہوں نے کیسے دیکھ لیا، مجھے تصویریں دیکھتے۔
شاہد احمد عباس کے مضامین کو اتنا پسند کرتا تھا۔ ’’فارفنٹی پیس آف سلور‘‘ طرح کی چیزیں کون نہیں پسند کرے گا۔ وہ خود بھی ساؤنڈ میں احمد عباس کے مضامین بڑے شوق سے پڑھا کرتی تھی۔ لیکن ساؤنڈ ملتے ہی اسے تصویریں دیکھنے کی بڑی بیتابی رہتی۔ ’’فلم انڈیا بھی کیوں نہ خریدیں؟‘‘ ’’فلم انڈیا اب یوں ہی سا پرچہ ہوکر رہ گیا ہے۔ کبھی اس میں بھی بڑے اچھے مضامین ہوا کرتے تھے‘‘ لیکن اس میں بہت سے آرٹ پلیٹ ہوتے ہیں اور بڑی بڑی تصویریں۔‘‘
’’تصویریں؟ او نازی تم تو ابھی بچی ہو!‘‘ تصویروں سے اسے دلچسپی نہ تھی۔ وہ یہ بھی غور کیے بغیر کہ ٹائٹیل پیج پر کس کی تصویر ہے، عباس کے آرٹیکل پر ٹوٹ پڑتا اور صبا کے۔ ’’میں کہتا ہوں یہ صبا بھی عباس ہی ہوں گے، نازی، دیکھو تو اسٹائل کتنا ملتا ہے اور Saba یوں ہی Abbas کا الٹا ہے۔‘‘ ’’واقعی کیا لکھتے ہیں عباس!‘‘ وہ ہمیشہ بمبئی کرانیکل کا آخری صفحہ اس کے سامنے پکڑ کر کہتا۔ نسرین عباس کا مضمون پڑھ چکی تھی۔ تصویریں دیکھ کر اس نے ساؤنڈ میز پر رکھ دیا۔ میز پر چیزیں بے ترتیبی سے بکھری پڑی تھیں۔ اس نے بید کے ٹرے میں تازہ خطوط رکھے اور دوسری چیزیں بھی قرینے سے رکھنے لگی۔
’’مجھے بھی چند مضامین دو۔‘‘ میں نے سب چیزیں اپنی اپنی جگہ رکھ کے پوچھا۔
’’نہیں تم اندازہ نہیں لگا سکو گی۔‘‘
’’تو پھر میں کیا کروں؟‘‘
’’چپ بیٹھی رہو رانی۔‘‘ انہوں نے بڑی ہی میٹھی نظروں سے دیکھتے ہوئے پیار سے کہا اور ان بلوریں نینوں میں رس بھر آیا۔ جگمگاتی سبز پتلیوں پر جھکی ہوئی وہ گھنی پلکیں! میں سفید و سبز و سیاہ کے اس خوبصورت سنگم کو دیکھتی رہی، دیکھتی رہی۔ پھر وہ ریشمیں پلکیں جھپک گئیں اور سبز کانچ کی سی پتلیاں بادام کے سے پپوٹوں میں چھپ گئیں اور نسرین کی نگاہیں ان پر سے ہٹ کر ادھر ادھر کمرے میں بھٹکنے لگیں۔
’’دیکھو نازی میرا خیال ہے اس دفعہ نظم سے پہل نہ کی جائے چھوٹے ہی احمد علی کا مضمون دے دیا جائے کیوں؟‘‘
اوہ! انہوں نے ترتیب شروع کر دی۔ میں نے چونک کر کہا، ’’ہاں مضمون ہی سے شروع ہو تو اچھا ہے۔‘‘
’’پھر، ٹھہرو تمہیں کیسے معلوم ہو، فہرست کی ایک اور کاپی تمہارے لیے بنا دیتا ہوں۔‘‘
اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے یاد ہیں سب مضامین کے نام۔ میرے خیال میں اس کے بعد فیض احمد فیض یا اختر انصاری کی نظم۔۔۔‘‘
’’نہیں اختر انصاری کی یہ نظم تو ان پر مضمون کے ساتھ آئے گی اور ان کی سب نظمیں ایک ساتھ آئیں تو اچھا ہے۔ ایک یہاں، ایک وہاں ڈالی جائے تو ترتیب میں بڑی بے سلیقگی نظر آئے گی، فیض کی نظم ٹھیک رہے گی۔ پھر؟‘‘
’’کرشن چندر کا۔۔۔‘‘ انہوں نے میری بات کاٹ دی۔ ’’اوہ نازی! تو سب بڑے بڑے ناموں کو شروع میں رکھنا چاہتی ہو، ترتیب میں ناموں کو کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے، مشہور لکھنے والوں کے مضامین تو سب پڑھتے ہی ہیں، خواہ وہ شروع میں چھپے ہوں یا درمیان میں یا آخر میں۔ ترتیب میں محض ناموں کاخیال نہیں رکھنا چاہیے، ٹھہرو میں پہلے ایک رف سا خاکہ بنا لیتا ہوں۔ پر ترمیم کرنا ہو تو غور کریں گے۔‘‘
شاہد محض یوں ہی ترتیب نہیں دیتا تھا۔ کتنا سلیقہ ہوتا تھا اس کی ترتیب میں! مشہور اہل قلم بھی اس کے سلیقہ اور حسن ترتیب کی دل کھول کر داد دیتے تھے۔ ’’کیا کہوں آپ کو پرچہ مرتب کرنے کا ایسا سلیقہ ہے۔‘‘ ’’نیا دور‘‘ کے مضامین تو بلند پایہ ہوتے ہی ہیں لیکن آپ اس میں اندازِ ترتیب سے نئی جان، نئی بیداری، نیا حسن پیدا کر دیتے ہیں۔‘‘ ہاں شاہد کے انداز ترتیب میں ایک خاص ذوق جھلکتا تھا۔ وہ کہیں ایسے مضامین ایک کے بعد دیگر رکھتا تھا جن میں بالکل تضاد ہو۔
میں جانتی تھی اب وہ پھر بڑے انہماک سے نظمیں وغیرہ ہے پڑھ کر بڑی سوچ بچار کے بعد خاکہ تیار کریں گے۔ اتنی دیر تک پھر خاموش بیٹھنا ہوگا؟ میں اندر اٹھ کر جانے والی تھی کہ انہوں نے پوچھا۔
اس دفعہ ہم نے دوسری زبانوں کی کہانیوں کے لیے کچھ نہیں کیا ہے نا؟ مالتی کا ترجمہ مکمل کر لیا ہے کیا؟
’’مکمل تو کیا، آدھا بھی نہیں کیا، اتنا طویل ہے وہ افسانہ میں نے اکتا کر چھوڑ دیا، آئندہ نمبر کے لیے ضرور کردوں گی۔‘‘
تو پھر اس دفعہ کون سی کہانیاں شامل کی جائیں؟ میں نے یہیں کے دو تین آدمیوں سے چند ترجمے کروائے ہیں۔ لیکن ترجمے خراب ہوئے ہیں۔ تم دیکھ کر تصحیح کر دو تو میں شامل کر لوں گا۔
’’میں نہیں کروں گی تصحیح، میں نے پڑھا ہے انہیں‘‘ میں جھنجھلا گئی، جملہ جملہ بدلنا پڑے گا۔ ازسرنو ترجمہ کرنا ہوگا، اس سے تو بہتر ہے اوریجنل دیکھ کر میں خود ہی ترجمہ کر دوں۔‘‘
’’لیکن، نازی، وہ نارویجین کہانی کا ترجمہ کر دیا ہوتا۔ چھوٹی سی ہے نا!‘‘
’’کونسی نارویجین کہانی؟‘‘
’’Knut Hamsun کی دی کال آف لائف۔‘‘
’’ہاں وہ ضرور کر دوں گی، کنوٹ ہامزون کو نوبل پرائز ملا تھا؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ اور سنو کوئی اور بہت اچھی کہانیاں ہیں۔ تمہاری نظر میں جن کا ترجمہ ہو سکے؟‘‘
’’ترجمے کے لیے میں نے چند کہانیوں کا انتخاب کر رکھا ہے۔
میں نے غور ہی نہیں کیا وہ کیسی تحسین آفرین نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ ہونٹ بھینچے۔ میں شرما گئی اور بات ٹال کر پوچھا۔ ’’اچھا تو کس کا ترجمہ کروں میں اس نمبر کے لیے؟‘‘
’’میں نہیں چاہتا، تم اتنا وقت ترجموں میں صرف کرو۔ تم میں تخلیقی صلاحیت ہے۔ ترجموں میں تمہارا بہت سا وقت بیکار جا رہا ہے۔ تم افسانے تو بالکل نہیں لکھ رہی ہو آج کل؟‘‘
’’لیکن لکھوں کس پر، میرا مشاہدہ تو اتنا محدود ہے، بچپن ہی سے اتنے سخت پردے میں رکھا تھا، ہر پھرا کے ذرا آٹوبیاگرافک افسانے ہی تو لکھ سکتی ہوں۔‘‘
’’تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے اس طرح کے افسانے لکھنا کمتری کا باعث ہے۔ دنیا کے لٹریچر میں کئی بہترین چیزیں آٹوبیاگرافک ہی تو ہیں، واقعات کی سچائی اور جذبات و احساسات کی مہین باریکیوں کی صحیح عکاسی اس میں آسانی سے ہو سکتی ہے۔‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے لیکن میدان ہی کچھ محدود ہو جاتا ہے۔‘‘
’’ایک حد تک۔ لیکن ہم توجہ دیں تو بہت سارے موضوع مل سکتے ہیں، کیوں کیا ایک فرد کی زندگی میں اتنا مواد نہیں کہ بیسیوں افسانے بن سکیں؟‘‘
’’اور اگر واقعات ایسے چنے جائیں جن میں بہتوں کی زندگی کا عکس ہو یا اس کے اندر سے کوئی Basic Human element جھلکتا نظر آئے تو خواہ پس منظر ایک ہی فرد کی زندگی کا کیوں نہ ہو افسانہ میں اجتماعی رنگ آ جاتا ہے۔‘‘
’’ارے تم نے میرے منہ سے بات چھین لی، میں اب بالکل یہی کہنے والا تھا، جب ہم بحث کر رہے ہوتے ہیں تم کبھی کبھی کیسے وہی بات کہہ دیتی ہو جو میں کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’دل سے دل کو راہ ہوتی ہے، یہ ایک ’’ترقی پسند‘‘ صورت ہے۔‘‘ ہم دونوں پر بری طرح ہنسی کا دورہ پڑا۔
دونوں ترجموں کا نام فہرست کے نیچے لکھ کر پھر کاغذوں پر جھک گئے اور نسرین خطوط میں سے جو زیادہ ضروری تھے، انہیں نکال کر جواب لکھنے لگی۔ میں نے چھٹاواں خط لکھ کر ان کی طرف بڑھایا۔ ’’ذرا دستخط کر دو اس پر۔‘‘
’’کیوں؟‘‘……….’’تمہاری طرف سے لکھا ہے وہی پبلشر کے خط کا جواب۔‘‘ دستخط کر کے انہوں نے میرے ہاتھ میں خط دیتے ہوئے کہا، ’’میں نے خاکہ بنا لیا ہے پڑھ کر سناؤں؟‘‘
’’ارے اتنا جلد۔‘‘ میں متعجب ہوگئی۔ ’’تمہاری ترتیب تو۔۔۔‘‘ ’’دھارے کی طرح بہتی ہے، پھلجھڑی کی طرح بکھر جاتی ہے، فوارے کی طرح چھوٹتی ہے، قوس و قزح کے رنگوں میں بٹ جاتی ہے، کیسے کیسے شاعرانہ نام دے رکھے ہیں تم نے۔ لیکن اس دفعہ مضامین ہی کچھ ایسے ہیں کہ کسی خاص سلیقہ سے ترتیب دینا ممکن نہیں۔ میں نے یوں ہی ترتیب دے دی ہے سنو گی؟‘‘
’’اچھا۔‘‘ ……….’’تمہارے کہنے کے مطابق میں نے پہلے احمد علی کا مضمون رکھا ہے، پھر فیض احمد فیض کی نظم پھر کرشن چندر کا افسانہ۔۔۔‘‘ وہ پڑھتے گئے۔
میں غور سے سن رہی تھی۔ ایک نظم کا نام سن کر میں نے چونک کر پوچھا، ’’یہ نظم؟ مجھے ایسے یاد پڑتا ہے۔ یہ معمولی تھی ادھر لاؤ پھر پڑھ کے دیکھوں۔۔۔‘‘
’’معمولی ہے؟‘‘
’’پھر بھی اتنی ساری معمولی نظمیں جو موصول ہوئیں ہیں، ان میں غنیمت ہے۔‘‘
’’غنیمت؟ کیا ’نیا دور‘ کا معیار غنیمت پر اتر آیا ہے؟‘‘
’’لیکن نازی، اس دفعہ اچھی نظمیں بہت کم موصول ہوئی ہیں۔‘‘
’’کم ہیں تو شائع شدہ نظموں میں سے بہت اچھی چن کے ڈالیں جیسے پہلے نمبروں میں کیا تھا۔‘‘
’’لیکن مطبوعہ چیزیں حتی الامکان کم۔۔۔ اس دفعہ دونوں ترجمے بھی تو مطبوعہ ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے فہرست پڑھنی شروع کی۔ ’’پھر یہ نظم۔‘‘
’’ارے یہ بھی معمولی ہے۔ ایک سے دو معمولی چیزیں شامل ہوں تو مجموعی اثر بھی خراب ہو جائے گا۔‘‘ پر وہ بہت دیت تک خاموش رہے۔ ’’آگے پڑھو نا، کیوں خفا ہو گئے کیا؟‘‘
’’خفا کیوں ہوں گا، میری نازی، تم تو وہی کہہ رہی ہو جو میں نے بھی محسوس کیا لیکن مجبوری ہے۔‘‘
’’پھر کیا ہے اس کے بعد؟‘‘
’’کہوں تو تم اور بھی متعجب ہوگی۔ یہ افسانہ بھی دوسرے درجہ کی چیز ہے لیکن اس مصنف کی بہت ساری چیزوں سے بہتر ہے۔‘‘
’’دوسرے درجہ کا افسانہ؟ یہ تو اور بھی بری بات ہے، ایک دوسرے درجہ کے افسانے کو ’’نیا دور‘‘ میں جانے دیں؟‘‘
’’اگر یہ نکال دیں تو اس نمبر میں اردو کے صرف دو ہی افسانے رہ جائیں گے، وہ بھی چھوٹے۔‘‘
’’دو ہی کیوں۔ ہم نے تو اردو کے بہت اچھے افسانوں کی اتنی لمبی فہرست بنا رکھی ہے۔ ’’نیا دور‘‘ میں شائع کرنے کے لیے؟‘‘
’’لیکن حتی الامکان غیر مطبوعہ۔۔۔‘‘
’’غیر مطبوعہ، غیر مطبوعہ، آخر کیوں؟ ہم نے شائع شدہ چیزوں کے شائع کرنے کی سب ایڈیٹروں اور پبلشروں سے اجازت لے لی ہے نا اور اعلان بھی کر دیا ہے کہ ’’نیا دور‘‘ پنگون نیو رائٹنگ کی طرز پر نکالا جا رہا ہے۔
’’لیکن انگریزی میں اس طرح کی چیزیں کس قدر مقبول ہوتی ہیں۔ پینگون نیو رائٹنگ میں تو خیر تین چار چیزیں غیرمطبوعہ ہوتی ہیں لیکن آرگوسی اور ریڈرز ڈائجسٹ میں تو سب انتخاب ہی ہوتا ہے، پھر بھی ان کی کتنی قدر ہوتی ہے، ہمارا ’’نیا دور‘‘ کیوں؟
’’تم بھول رہی ہو نازی، یہ ہندوستان ہے۔‘‘ انہوں نے ہنس کر کہا۔ کتنی تلخی تھی۔ اس ہنسی میں!
’’تو ہم پرچے کم چھپوائیں گے۔ ’’نیا دور‘‘ صرف بہت اچھے ذوق والوں کے ہاتھوں میں پہنچے۔‘‘
’’کم چھپوائیں تو خرچ کیسے نکل سکے گا؟‘‘
’’پرچوں کی تعداد خواہ کتنی بھی کم ہو کتابت اور طباعت اور کور پیج کی پرنٹنگ کا وہی خرچ ہوگا۔ طباعت اور کتابت کے لیے روپے فارم کے حساب سے دیے جاتے ہیں اور کور پیج کے لیے کتنے رنگ کی پرنٹنگ ہے اس حساب سے۔‘‘
’’ہم نے پرچہ مالی فائدہ کی غرض سے تو نکالا نہیں۔ لیکن خرچ بھی نہ نکلے تو؟ تم جانتی ہو کتنا خرچ آتا ہے ہمیں ’’نیا دور‘‘ پر۔ چھتیس روپے ریم سے کم کا کاغذ ہمیں کبھی ملا ہی نہیں اور آئندہ نمبر کے لیے تو پچاس روپے ریم والا چکنا، بتیس پونڈ کا کاغذ خرید کر پریس میں رکھ آیا ہوں۔‘‘
’’افوہ! کیوں خریدا اتنا مہنگا کاغذ؟ پچاس روپیہ ریم!‘‘
’’سفید کاغذ بالکل ناپید ہے ان دنوں! جو ملتا ہے وہی خریدنا پڑتا ہے، یہاں اتنی قیمت پر بھی کافی نہیں ملتا۔‘‘
’’لیکن ہم اخباری کاغذ کیوں نہ استعمال کریں؟ تم کہہ رہے تھے اس کی قیمت صرف بارہ روپیہ ہے۔‘‘
’’اخباری کاغذ استعمال کرنے کی ہمیں اجازت نہیں۔ صرف ان پرچوں کے لیے جو ۱۹۴۲ء سے پہلے نکلتے تھے اخباری کاغذ کا کوٹا منظور ہوا ہے۔‘‘
’’تو پھر کیا کریں؟ ’’نیا دور‘‘ کی نوعیت کو بدلنا ہوگا؟‘‘
’’ہاں‘‘، انہوں نے دبی آواز میں جواب دیا اور فہرست کی کاپیاں بنانے لگے۔
’’لڑکے کو آواز دو، نازی، ابھی کاتب کے پاس فہرست اور مسودے بھجوا دوں۔‘‘ میں لڑکے کو بلا لائی۔ وہ غور سے فہرست دیکھ رہے تھے۔ ان کی خوبصورت پیشانی پر بل پڑتے تھے اور چہرہ پر اداسی چھائی ہوئی تھی، میں جانتی تھی۔ کیوں اداس تھے میرے شاہد! وہ اتنا اچھا ذوق رکھ کر بھی اپنے ذوق کے مطابق پرچہ مرتب نہ کر سکے تھے!
انہوں نے لڑکے کے ہاتھ میں مسودوں کا لفافہ دیتے ہوئے کہا، ’’اس دفعہ پرچہ واقعی کمزور ہوگا، اچھے ادیبوں کے مضامین اور افسانے بھی اتنے اچھے نہیں ہیں اس میں! لیکن گھبراؤ نہیں، نازی، یہ ایک ہی پرچہ ایسا ہوگا۔ آگے چل کر سب اچھے ادیب ہمیں مضامین بھیجتے رہیں گے۔‘‘
’’لیکن کتنے ہی ذوق والے ’’نیا دور‘‘ کا فائل رکھ رہے ہیں، ایک پرچہ بھی کمزور ہونا ہمارے لیے شرم کی بات ہے۔‘‘
وہ لڑکے کو گیٹ سے باہر نکل کر مڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ لڑکا سائیکل پر سوار ہو کر آن کی آن میں دور نکل گیا۔
انہوں نے دروازے کی طرف سے نظریں پھیر کر مجھے دیکھا اور دبی آواز میں اداسی سے جواب دیا۔ ’’ٹھیک کہتی ہو۔‘‘
اب وہ سبز پتلیاں کتنی اداس اور پھیکی تھیں۔
خطوط