جمعرات, فروری 20, 2025
اشتہار

حیات اللہ انصاری:‌ مختصر افسانہ نگاری میں ایک اہم نام

اشتہار

حیرت انگیز

اردو ادب میں کئی نام ایسے ہیں جنھیں ہم فراموش کردہ شخصیات کی فہرست میں شامل کرسکتے ہیں جس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ناقدین نے کئی دوسرے ادیبوں‌ کی طرح ان کے فن و تخلیق کو موضوع نہیں بنایا۔ حیاتُ اللہ انصاری انہی میں سے ایک ہیں۔

ان کا نام اگرچہ مختصر افسانہ نویس کے طور پر بہت اہم رہا ہے، لیکن اکثر اہلِ‌ قلم کا خیال ہے کہ زندگی میں ان کے فن و تخلیق کا اعتراف بہت کم ہی کیا جاسکا اور ناقدین ان کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ افسانہ و ناول نگار، نقّاد، اور صحافی کی حیثیت سے پہچانے گئے حیاتُ اللہ انصاری کی آج برسی ہے۔

حیات اللہ انصاری کے افسانہ بعنوان ‘‘بڈھا سود خور’’ نے ادبی دنیا کو اس وقت اپنی جانب متوجہ کیا تھا جب فکشن نگاری میں کرشن چندر جیسا نام ہر طرف سنائی دیتا تھا۔ ان کے علاوہ راجندر سنگھ بیدی اور کئی نام پہلے ہی اردو ادب کے قارئین میں مقبول تھے۔ یہ وہ افسانہ تھا جس سے قلم کار کے حقیقت پسند اور انسان دوست ہونے کا علم ہوتا ہے۔ روایتی ڈگر سے ہٹ کر یہ حیات اللہ انصاری کا پہلا مطبوعہ افسانہ تھا۔ اس کی اشاعت 1930ء میں ہوئی۔

مختصر کہانی میں حیات اللہ انصاری کو بڑا کمال حاصل تھا۔ ان کے افسانے بہت پسند کیے گئے، اور اپنے ہم عصروں میں انھیں اپنی مختصر نویسی کی وجہ سے امتیاز حاصل رہا۔ حیات اللہ انصاری کے افسانے اپنے فن، تکنیک ، موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے اردو کے افسانوی ادب میں گراں قدر سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں زبردست تنوع پایاجاتا ہے۔ جذبات نگاری اور حقیقت نگاری ان کے افسانوں کی ایک اہم پہچان ہے۔ ان کے افسانے نادر تشبیہات و استعارات سے مزین نظر آتے ہیں۔ ان کی جدتِ طبع نے افسانہ نگاری کو بامِ عروج تک پہنچا دیا ہے۔

متحدہ ہندوستان کے اس ادیب نے تقسیم کے بعد بھارت میں ہی رہنا پسند کیا جہاں وہ ایک ماہرِ تعلیم اور تحریکِ اردو کے پُرجوش اور مضبوط کارکن کے طور پر بھی ابھرے۔ حیات اللہ انصاری کے ہم عصروں میں چند بڑے ناموں کو چھوڑ کر مجنوں گورکھ پوری اور نیاز فتح پوری بھی اسی دور میں افسانوی ادب میں نام بنا رہے تھے۔ ان کے درمیان حیات اللہ انصاری انسانیت کی توقیر، زندگی کی قدر و قیمت اور حقیقت پسندی پر اپنی تخلیقات کی وجہ سے نمایاں ہوئے۔ فنی اعتبار سے حیات اللہ انصاری نے اپنے مختصر افسانوں میں اپنے اسلوب اور طرزِ بیان سے بھی قارئین کو متوجہ اور ناقدین کو متاثر کیا۔ ان کا طرزِ‌ بیان خوب صورت اور تحریر دل نشیں ہونے کے ساتھ موضوع اپنی بلند خیالی اور مقصدیت سے بھرپور رہا ہے۔ حیات اللہ انصاری کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘‘بھرے بازار میں’’ کے نام سے 1935 میں شایع ہوا تھا۔ ان کی دوسری کتاب ‘‘انوکھی مصیبت’’ اور تیسرے مجموعے کی اشاعت ‘‘شکستہ کنگورے’’ کے عنوان سے ہوئی۔ 1991 میں ‘‘ٹھکانہ’’ شایع ہوئی اور یہ ان کی چوتھی کتاب تھی۔ حیاتُ اللہ انصاری نے ناول بھی لکھا جس میں‌ ‘‘لہو کے پھول’’ کا موضوع ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد تھا۔ یہ ان کا پانچ جلدوں پر مشتمل ناول تھا اور اس پر بعد میں بھارت میں ڈراما بھی بنایا گیا۔ ایک ناول ’’گھروندا‘‘ کے نام سے اور ناولٹ بھی کتابی شکل میں‌ سامنے آئے۔

حیات اللہ انصاری مدیر ہفت روزہ ہندوستان، بانی مدیر قومی آواز لکھنؤ، مدیر ہفت روزہ سب ساتھ، مدیر ہفت روزہ سچ رنگ بھی رہے۔ اردو زبان کے لیے بھارت میں انھوں‌ نے بڑی خدمات انجام دیں اور اسے آئین اور حکومتی وعدوں‌ کے مطابق اس کا مقام دلانے کے لیے کوششیں‌ کرتے رہے۔

وہ لکھنؤ میں 1912 میں پیدا ہوئے تھے۔ اس دور کے رواج کے مطابق تعلیم کے لیے مدرسہ میں داخل ہوئے اور اگلی جماعتوں سے کام یاب ہونے کے بعد علی گڑھ سے بی اے کیا۔ سیاست بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ لیکن پہلے وہ بطور قلم کار ترقی پسند تحریک سے جڑے اور پھر اپنے سیاسی نظریات کے تحت کانگریس کے پلیٹ فارم پر نظر آئے۔ وہ بحیثیت سیاست داں بھی متحرک رہے۔

حیات اللہ انصاری 1999 میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں