منگل, دسمبر 17, 2024
اشتہار

پریم چند کا تذکرہ جن کی ہنسی کبھی دھیمی یا پھیکی نہیں پڑی!

اشتہار

حیرت انگیز

پریم چند کی کچھ باتیں کرنے میں آج آپ کے سامنے ہوں۔ اس بات پر جی میں کچھ بے چینی ہوتی ہے۔ آج وہ ہمارے بیچ نہیں ہیں۔ اور کبھی وہ دن تھے کہ ہم لوگ پاس بیٹھ کر چرچا کیا کرتے تھے اور ان کی ہنسی کا قہقہہ کسی وقت بھی سُنا جاسکتا تھا۔ پر اس بات پر آج اٹک کر بھی تو نہیں رہا جاسکتا ہے۔ دنیا میں کون سدا بیٹھا رہتا ہے۔ اور کون بیٹھا رہے گا۔ آدمی آتے ہیں اور جو ان کے ذمہ کام ہوتا ہے کرتے ہوئے پردے کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔

پر پریم چند اس انجان پردے کے پیچھے ہوکر آنکھوں سےاوجھل ہوگئے ہیں۔ یاد سے دُور کرلینا انھیں ممکن نہیں ہے۔ زندگی ان کی اوسط سے زیادہ نہیں رہی۔ کل چھپن (۵۶) برس اس دنیا میں جیے۔ کہیں یہ برس روشنی کے برس تھے۔ اور ان کی زندگی سچی محنت ایمانداری اور سادگی کی زندگی تھی۔

یہ تو آپ اور ہم جانتے ہی ہیں کہ ہندستان میں ہندی اور اردو بھاشائیں جب تک ہیں پریم چند کا نام مٹ نہیں سکتا۔ وہ دُھندلا بھی نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ دونوں زبانوں کو پاس لانے میں اور ان دونوں کو گھڑنے میں ان کا بہت ہاتھ ہے۔ ان کے خیالات ہندوستان کی زندگی میں کھل مل گئے ہیں۔ اور وہ ہماری تاریخ کا جزو بن گئے ہیں۔ ان کی کہانیاں گھر گھر پھیلی ہیں ان کی کتابوں کے ورق لوگوں کے دلوں میں بس گئے ہیں۔

- Advertisement -

لیکن اس سچائی کا بانی کون تھا۔ یہ بہت لوگوں کو معلوم ہوگا۔ کیا چیز تھی جو پریم چند کی تحریروں کو اس قدر عمدہ بنا دیتی تھی یہ جاننے کے لیے ذرا پیچھے جاکر دیکھنا چاہیے۔ ان کی ہنسی تو مشہور ہی ہے۔ زندگی میں، میں نے کھلے گلے کا ویسا قہقہہ اور کہیں نہیں سنا۔ گویا جس من سے ہنسی کا وہ فوارہ نکلتا تھا اس میں کسی طرح کا کینہ اور میل تو رہ ہی نہیں سکتا۔

ان پر چوٹیں بھی کم نہیں پڑیں۔ سب ہی طرح کی مصیبتیں جھیلنا پڑیں۔ پھر بھی ان کی ہنسی دھیمی یا پھیکی نہیں ہوئی۔ یا تو وہ سب باتوں میں ایک طرح کی علیحدگی کے بہاؤ سےالگ کرکے دیکھ سکتے تھے۔ اس خوبی کی قیمت سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے بچپن کے زمانہ کو بھی کچھ دیکھنا چاہیے۔

چھٹپن کی بات ہے کہ ماں گزر چکی تھی پتا کا بھی پندرھویں برس انتقال ہوگیا تھا۔ گھر میں دوسری ماں تھی اور بھائی تھے اور بہن تھی۔ گھر میں کئی تن پالنے کو تھے۔ پر آمدنی پیسے کی نہ تھی۔ ادھر بالک پریم چند کے من میں ایم-اے پاس کرکے وکیل بننے کا ارمان تھا۔ بیاہ بھی چھٹپن میں ہوگیا تھا۔ وہی لکھتے ہیں پاؤں میں جوتے نہ تھے۔ بدن پر ثابت کپڑے نہ تھے۔ گرانی الگ، دس سیر کے جوتھے۔ اسکول سے ساڑھے تین بجے چھٹی ملتی تھی۔ کوئنز کالج بنارس میں پڑھتا تھا۔ فیس معاف ہوگئی تھی۔ امتحان سرپر اور میں بانس کے پھاٹک ایک لڑکے کو پڑھانے جایا کرتا تھا۔ جاڑے کاموسم تھا۔ چار بجے شام کو پہنچ جاتا۔ چھ بجے چھٹی پاتا۔ وہاں سےمیرا گھر پانچ میل کے فاصلہ پر تھا۔ تیز چلنے پر بھی آٹھ بجے رات سے پہلےگھر نہ پہنچتا۔

اپنی آپ بیتی کہانی جو انہوں نے لکھی ہے اس سے ان کے شروع کے جیون کے دن آنکھوں کے آگے آجاتے ہیں۔ ماں کم عمری میں ہی انھیں چھوڑ کر چل بسیں۔ پندرہ سال کی عمر میں پتا بھی چھوڑ گئے۔ شادی چھٹپن ہی میں ہوچکی تھی گھر میں کئی آدمی تھے۔ گاؤں سے روزانہ دس میل چل کر پڑھنے پہنچتے۔ گذارے کے لیے تین اور پانچ روپے کی ٹیوشن پائے۔ میٹرک جوں توں پاس ہوا اب آگے کے لیے کوششیں کیں۔ سفارش بھی پہنچائی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ داخلہ ہوگیا تو حساب انہیں لے ڈوبتا رہا۔ سالہا سال ریاضی کے مضمون کی وجہ سے وہ فیل ہوتے رہے۔ آخر دس بارہ سال بعد جب ریاضی اختیاری مضمون ہوا تب بڑی آسانی سے انہوں نے وہ امتحان پاس کرلیا۔ پڑھائی کے دنوں میں کتنے دن انہیں بھنے چنوں پر رہنا پڑا اور کتنے دن ایک دم بن کھائے گزارے، اس کا شمار ہی نہیں۔ آخر ایک دن پاس کھانے کو کوڑی نہ بچی تھی تب دو برس سے بڑے پیار کے ساتھ سنبھال کر رکھی ہوئی ایک کتاب دوکان پر بیچنے پہنچے۔ دوروپے کی کتاب کا ایک میں سودا ہوا۔ روپیہ لے کر دوکان سے اتر رہے تھے کہ ایک شخص نے پوچھا ‘‘کیا پڑھتے ہو؟’’ ‘‘نہیں مگر پڑھنے کو دل چاہتا ہے’’۔ ‘‘میٹرک پاس ہو؟’’، ‘‘جی ہاں’’۔ ‘‘نوکری تو نہیں چاہتے؟’’، ‘‘نوکری کہیں ملتی ہی نہیں۔’’ انہی بھلی مانس نے انہیں ملازمت دی تو شروع میں اٹھارہ روپے تنخواہ ہوئی۔ یہیں سے ان کی زندگی کا شروع سمجھنا چاہیے۔

(جے نندر کمار کے مضمون سے اقتباسات)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں