تعجب ہوگا کہ اس ڈاک کا ہمارے لغت میں پتہ نہیں۔ عربی میں ڈاک کے لئے برید کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں حضرت امیر معاویہ نے سب سے پہلے اس نظام کو قائم کیا اور برید اس کا نام پڑا۔
ہمارے عجمی اہلِ لغت نے اس کو فارسی بریدن سے لیا اور بتایا کہ چونکہ ڈاک کے لئے دُم بریدہ یعنی دُم کٹے گھوڑے کام میں لائے جاتے تھے اس لئے ڈاک کو برید کہنے لگے۔ حالانکہ اگر یہ اشتقاق درست بھی ہوتا تو زیر کے بجائے ب کو پیش ہونا چاہیے تھا۔ اب نئی تحقیق یہ ہے کہ یہ یونانی اور لاطینی سے عربی میں آیا ہے اور وریڈاس کی اصل ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ پہلے یہی لفظ آیا پھر ترکی لفظ اولاغ چلا۔ (برنی ص 447 کلکتہ) مگر فوراً ہی اس کی جگہ ایک ہندوستانی لفظ نے رواج پایا اور وہ لفظ دھاوا ہے۔ چنانچہ تغلقوں کی تاریخ میں یہ لفظ بولا گیا ہے۔ ابنِ بطوطہ نے سفرنامہ میں بعینہ یہی لفظ لکھا ہے برنی نے فیروز شاہی میں اس لفظ کا استعمال کیا ہے۔ (ص 447 کلکتہ) مگراس کو دھاوا کیوں کہتے تھے، اس کا پتہ اپنوں سے نہیں بلکہ ابنِ بطوطہ جیسے بیگانے سے چلتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ دھاوا کے معنی اہلِ ہند میں تہائی میل کے ہیں۔ چونکہ یہ ہرکارے ہر تہائی میل پر مقرر ہوتے تھے اس لئے اس کو دھاوا کہتے تھے اور استعمال سے راستے کے بجائے خود راستے والے پیادے کو دھاوا کہنے لگے۔ لیکن غریب نا آشنائے زبان کو اس میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ دھاوا کے معنی سنسکرت میں دوڑنے کے ہیں، چونکہ یہ دوڑ کر چلتے تھے اس لئے ان کی چال کو دھاوا کہنے لگے۔ پھر خود دھاوا ہوگئے اور ہر تہائی میل پر جہاں ٹھہرتے تھے، وہ دھاوا، ہو گیا۔ دھاوے کے ان پیادوں کی چوکیاں ہر تہائی میل پر دلّی سے لے کر دولت آباد تک بنی ہوئی تھیں۔ پیادہ گھنگھرو دار لاٹھی کو کندھے پر رکھ کر تیزی سے دوڑتا ہوا اگلے دھاوے تک پہنچتا تھا وہاں دوسرا پیادہ گھنگھرو کی آواز سن کر تیار رہتا تھا۔ وہ فوراً اس سے ڈاک لے کر آگے کے دھاوے کو دوڑتا تھا۔ اس طرح سندھ سے دلّی 5 دن میں ڈاک پہنچتی تھی۔
اس دھاوے کی یادگار ہماری زبان میں دھاوا کرنا، دھاوے پر چڑھنا، دھاوا بول دینا آج بھی موجود ہے اور دھاوے کے پیادے کو پایک کہتے تھے جو پیک کی صورت میں محرم کی تقریب میں امام کے نقلی قاصدوں کا ہم نے نام رکھا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ آل تیمور نے جب ہندوستان پر دھاوا کیا تو یہ لفظ یہاں سے مٹ چکا تھا۔ چنانچہ اکبر کے زمانہ میں جب بدایونی نے اس لفظ کو استعمال کیا تواس کو ترجمہ کی ضرورت ہوئی۔
فرشتہ نے جہانگیر کے زمانے میں اپنی کتاب لکھی تو دھاوا کا لفظ مٹ کر ڈاک چوکی کا لفظ پیدا ہوچکا تھا۔ مگر کہتا ہے کہ اس کو پہلے یام (ی ا م) کہتے تھے۔ سلطان علاؤ الدین کے حال میں لکھتا ہے، ’’از دہلی تا آنجا ڈاک چوکی کہ بزبان سلف یام می گفتند می نشاندہ۔‘‘ یہ یام فارسی استعمال میں ہے، دکن میں مدراس سے لے کر پونا تک اس کے لئے ٹپ ٹپال اور ٹپہ خانہ بولا جاتا ہے۔ ریاست حیدرآباد کا سرکاری لفظ یہی ہے۔
بہرحال ڈاک کا لفظ جہانگیر کے زمانہ میں یا اس سے پہلے سے بولا جانے لگا۔ اس کی اصلیت پر میں غور کرتا رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس کے معنی منزل کے ہوں گے چونکہ یہ منزل بہ منزل جاتے تھے اس لئے اس کو ڈاک کہنے لگے اوراس کے ہر پڑاؤ کو ڈاک چوکی بمعنی پہرہ جس کی ایک یادگار چوکیدار ہمارے پاس موجود ہے۔ اسی لئے انگریزوں نے اسی اصول سے بنگال سے الہ آباد تک اپنے منزل بہ منزل سفروں کے لئے جو مختصر قیام گاہیں بنائیں ان کو ڈاک بنگلہ کہا اور اب بھی وہ یہی کہے جاتے ہیں اور اگر لغت گڑھنے کا الزام نہ قائم کیا جائے تو جی چاہتا ہے کہ یہ کہوں کہ ہندوستان اور افغانستان کی سرحد پر ڈکہ اور بنگال کی حد پر ڈھاکہ اور دوسری طرف موتی ہاری سے نیپال کے پاس دوسرا ڈھاکہ اسی منزل گاہ کے باقی نشان ہیں۔ بہرحال منزل نے راستے کی اور راستے نے خط و لفافہ اور اشیائے ڈاک کی صورت اختیار کی اور اب وہ ڈاک کے پچھلے معنی کی صورت ڈاک بٹھانا، ڈاک لگانا، یعنی جلدی جلدی منزل بمنزل یا ہاتھوں ہاتھ چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا رہ گیا ہے۔
فیضِ ساقی نے مرے ڈاک لگا رکھی ہے
(راسخؔ)
روح ہے ہرجسم میں مشتاقِ اخبارِ اجل
اس لئے یہ آمد و رفتِ نفس کی ڈاک ہے
(ناسخؔ)
اسی سے ڈاک بولنا بھی ایک محاورہ ہے یعنی نیلام میں منزل بمنزل کسی چیز کی قیمت بڑھانا۔
کچھ دن ہوئے ایک قلمی ہندوستانی فارسی لغت برادرم پروفیسر سید نجیب اشرف ندوی (اسماعیل کالج بمبئی) کے پاس نظر سے گزرا۔ یہ لغت کسی ایرانی یا پارسی نے لکھا ہے۔ تالیف کا سنہ نہیں معلوم۔ اس میں ایک لفظ ڈانکیہ دیکھا جس کے معنی نقیب کے لکھے ہیں۔ نقیب شاہی درباروں میں درباریوں کو با ادب رہنے کے لئے زور سے آواز لگایا کرتے تھے۔ ڈانکنا کے معنی زور سے آواز لگانے کے ہیں۔ اس سے دوسرا خیال یہ ہوتا ہے کہ ڈاک کی اصل ڈانک اور ڈاکیہ کی ڈانکیہ ہے، چونکہ ڈاک کا چوب دار آواز دیتا ہوا چلتا تھا، اس لئے اس کو ڈانکیہ اور اس کے کام کو ڈانک کہا گیا اور ڈانک نے ڈاک کی صورت بدل کر منزل بمنزل رفتار کے معنی اختیار کر لیے۔
(ہندوستان کے نام وَر سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور کئی کتابوں کے مصنّف سید سلیمان ندوی کے الفاظ اور ان کے معنی سے متعلق مضمون سے اقتباس)