کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے سامنے کسی ملزم کو پیش کیا گیا اور کوتوال نے بادشاہ سے اجازت طلب کی کہ دربار میں اس کا مقدمہ سنایا جائے۔
بادشاہ نے مقدمہ سنا اور ملزم کو موت کی سزا سنا دی۔ بادشاہ کا فیصلہ جان کر سپاہیوں نے ملزم کو پکڑا اور دربار سے باہر کی طرف لے کر چلے۔
ملزم نے باہر جاتے ہوئے بادشاہ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ سچ ہے کہ جان کا خوف بڑا ہوتا ہے۔ کسی شخص کے لیے اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ اسے قتل کرنے کا حکم دیا جا چکا ہو اور وہ سپاہیوں کے نرغے میں مقتل کی طرف جا رہا ہو۔
ملزم کو سزا سنائی جاچکی تھی اور اس کے دل سے کم از کم یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ اس کی بکواس بادشاہ سن لے یا کوئی دوسرا سن کر بادشاہ کو بتا دے تو وہ طیش میں آکر اس کا سَر قلم کروا دے۔ یہ تو اب یوں بھی ہونے ہی والا تھا۔
بادشاہ نے قیدی کو کچھ کہتے دیکھا تو اس نے ایک وزیر، جو قیدی کے نہایت قریب تھا، سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا تھا؟ بادشاہ کا یہ وزیر بہت نیک دل تھا۔ اس نے سوچا، اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصّے میں آجائے گا اور ممکن ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو جسمانی تکلیف اور آزار دے۔
اس رحم دل وزیر نے جواب دیا۔ جناب یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ وزیر کی بات سن کر بادشاہ مسکرایا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔
بادشاہ کا ایک اور وزیر بھی دربار میں موجود تھا جو اس رحم دل وزیر کا بڑا مخالف اور ایک تنگ دل انسان تھا۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا۔
یہ بات ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پر لائیں۔ اب اس نے بادشاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ سچ یہ ہے کہ وہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ اس نے غصہ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہیں کی۔
وزیر کی یہ بات سن کر بادشاہ نے کہا۔ اے وزیر! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے، تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی۔
یاد رکھ! اس سچ سے جس سے کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی امید ہو۔ وہ سچ جو فساد کا سبب ہو، اس سے بہتر نہیں کہ وہ جھوٹ زباں پر آئے جو فساد اور اس کی تباہ کاریوں کا راستہ روک لے۔ حاسد وزیر بادشاہ کی یہ بات سن کر بہت شرمندہ ہوا۔
بادشاہ نے قیدی کو آزاد کرنے کا حکم بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ شاہانِ وقت ہمیشہ اپنے وزیروں اور مشیروں کی بات کو اہمیت دیتے ہیں اور اگر وہ اسے اچھا مشورہ اور بھلی بات کہیں تو یہ سب کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
یہ حکایت حضرت شیخ سعدیؒ سے منسوب ہے۔ تاہم اس حکایت کے بیان کا مدعا اور مقصود یہ ہے کہ مصلحتا اور نیک نیتی کے ساتھ کسی برائی اور بڑے فساد کو روکنے کے لیے جھوٹ بولا جاسکتا ہے، لیکن پیشِ نظر کوئی اعلیٰ و ارفع مقصد ہو تو اسے معاملہ فہمی اور تدبیر کہا جاسکتا ہے، ورنہ جھوٹ اور دروغ گوئی بدترین فعل ہی ہے۔