ہفتہ, جون 14, 2025
اشتہار

بزّاز اور کوتوال (دل چسپ حکایت)

اشتہار

حیرت انگیز

ایک دکان دار کا اس قول پر بڑا اعتقاد تھا کہ "کیجے تو ڈریے، نہ کیجے تو بھی ڈریے۔” اس کے قریب ہی ایک بزّاز بھی کاروبار کرتا تھا۔ وہ اس سے متفق نہ تھا اور اس قول کے بالکل خلاف تھا۔

سبق آموز کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

ایک روز ایک نہایت امیر شخص زرق برق لباس پہنے ہوئے، جس کے ساتھ ایک خدمت گار تھا اور اس خدمت گار کے کندھے پر ایک بچہ سو رہا تھا، بزاز کی دکان پر آیا۔ اس نے بہت سارا اور قیمتی کپڑا پسند کیا اور خریدنے کی غرض سے الگ رکھتا گیا۔ جب قیمت چکانے کا وقت آیا تو وہ امیر شخص اپنی جیبیں ٹٹولتے ہوئے کچھ حیران اور پریشان بھی نظر آیا۔ وہ شخص تگڑی اسامی تھا اور کئی ہزار کا کپڑا اس نے پسند کیا تھا۔ بزاز بہت خوش تھا اور جلدی سے رقم اپنے گلک میں دیکھنا چاہتا تھا۔ اسے پریشان دیکھ کر بزاز نے وجہ پوچھی تو اس امیر شخص نے بتایا کہ "بٹوہ گھر بھول آیا ہوں، اگر اجازت دو تو گھر جا کر بٹوہ لے آؤں، مگر سوچتا ہوں کہ جاتے ہوئے یہ کپڑا ساتھ لے جاؤں۔ بطور ضمانت اس بچے کو اور خدمت گار کو بزاز کی دکان پہ چھوڑے جاؤں گا۔” بزاز نے بخوشی اجازت دے دی۔

وہ شخص کپڑا اٹھا کر چلا گیا۔ بہت دیر ہو گئی لیکن وہ نہ پلٹا تو خدمت گار نے بچے کو دکان میں لٹایا اور خود پانی پینے چلا گیا۔ اب اسے بھی گئے بہت دیر ہو گئی تو بزاز پریشان ہو گیا کہ نہ تو خدمت گار آتا ہے نہ خریدار آتا ہے اور نہ ہی بچہ سو کر اٹھتا ہے۔ اس نے سوئے ہوئے بچے کے منہ پر سے کپڑا ہٹایا تو معلوم ہوا کہ بچہ مردہ ہے۔ اس کی گردن پہ انگلیوں کے نشان تھے۔ بزاز بہت پریشان ہو گیا کہ کیا کرے۔ اتنی دیر میں خریدار اور خدمت گزار واپس آتے نظر آئے۔ بزاز کی جان میں جان آئی، لیکن دکان میں آکر سب سے پہلے خریدار نے بچے کو دیکھا اور پھر شور مچا دیا کہ بزاز نے اس کے بچے کو مار دیا ہے۔

بزاز نے ہزار قسمیں کھائیں لیکن خدمت گار اور خریدار مسلسل غضب ناک ہوتے رہے۔ آخر کو معاملہ کوتوال تک پہنچا تو کوتوال نے بھی خریدار اور خدمت گار کو سچا مانا۔ جب بہت شور ہوا اور سارا بازار اکٹھا ہو گیا تو کوتوال بزاز کو ایک طرف لے گیا اور کہا کہ ” اگر تم مجھے دس ہزار روپے دو تو میں تمہاری گلو خلاصی کروا سکتا ہوں۔” بزاز نے ہامی بھر لی۔ پھر اس کوتوال نے خریدار سے کہا کہ ” بزاز آپ کو پچاس ہزار دے گا، آپ اس کی جان چھوڑ دیں۔ بچہ اس نے نہیں مارا۔ اور یہ مارے گا بھی کیوں؟ اور اگر آپ نے میری بات نہ مانی تو میں آپ کو اور خدمت گار دونوں کو قتل کے الزام میں حوالات میں بند کر دوں گا۔”

یہ سن کر خریدار راضی ہو گیا اور مجبوراً بزاز کو پچاس ہزار روپے خریدار کو دینا پڑے۔ اس سے پہلے وہ جو قیمتی کپڑا لے گیا تھا اس کا نقصان الگ ہوا۔ تب معاملہ رفع دفع ہونے کے بعد بزاز اپنے ساتھی دکان دار کی طرف آیا اور ہاتھ جوڑ کر بولا۔ ”ہاں بھائی تم سچ کہتے تھے، کیجیے تو ڈریے، نہ کیجیے تو بھی ڈریے۔”

سبق:‌ برا وقت پوچھ کر نہیں آتا۔ انسان کو ناگہانی آفت سے ڈرنا چاہیے اور اللہ سے پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں