تازہ ترین

آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاہدے پر امریکا کا ردعمل

واشنگٹن: امریکا نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)...

مسلح افواج کو قوم کی حمایت حاصل ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

ملت ایکسپریس واقعہ : خاتون کی موت کے حوالے سے ترجمان ریلویز کا اہم بیان آگیا

ترجمان ریلویز بابر رضا کا ملت ایکسپریس واقعے میں...

صدرمملکت آصف زرداری سے سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات

صدر مملکت آصف علی زرداری سے سعودی وزیر خارجہ...

درویش وزیر! (حکایت)

کسی بادشاہ نے معمولی خطا پر اپنے وزیر کو اس کے منصب سے ہٹا دیا۔ فراغت کے دنوں‌ میں وزیر کو درویشوں کی صحبت میں‌ بیٹھنے کا موقع ملا اور اس نے خود کو بہت مطمئن، آسودہ اور روحانی طور پر مسرور پایا۔ ادھر تھوڑا عرصہ گزرنے پر بادشاہ کو احساس ہوگیا کہ وزیر کی خطا ایسی نہ تھی کہ اسے یوں دربار سے نکال دیا جاتا۔ اس نے وزیر کو دربار میں طلب کیا اور اسے کہا کہ وہ دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالے اور جو ہوا اسے فراموش کردے۔

اس پر سابق وزیر نے بادشاہ سے جو کہا وہ دنیا داروں اور درباریوں کے لیے حیران کُن تھا۔ درباریوں‌ نے سنا کہ اس نے بادشاہ کو نہایت نرم اور مؤدب لہجے میں‌ انکار کردیا اور وجہ دریافت کرنے پر کہا کہ اب گوشہ نشیں‌ ہے اور سمجھتا ہے کہ جو لوگ مکانِ عافیت میں‌ بیٹھ جاتے ہیں‌ وہ دوسروں کی ناخوشی اور اپنی سلامتی کے خوف سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

بادشاہ نے یہ سن کر اصرار کیا اور کہاکہ مجھے سلطنت کے انتظام کے واسطے ایک عقل مند اور تجربہ کار وزیر کی ضرورت ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کے لیے تم سے بہتر کوئی نہیں‌ ہے۔

وزیر نے جواب دیا۔ آپ کو ایک عقل مند چاہیے اور اگر میں‌ یہ منصب قبول کرتا ہوں تو یہ میری کم عقلی اور نادانی ہو گی۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے کاموں کا ذمہ ہی نہ لیا جائے۔ بادشاہ سلامت غور کیجیے کہ ہُما تمام پرندوں میں کیوں‌ اتنا معزز ہے؟ وہ اس لیے کہ وہ ہڈیاں کھا لیتا ہے، لیکن کسی جانور کو نہیں‌ ستاتا۔

سابق وزیر نے بادشاہ کو ایک حکایت بھی سنائی۔ اس نے کہا کہ ایک مرتبہ کسی نے سیاہ گوش سے پوچھا، تم نے شیر کے قریب رہنا کیوں پسند کیا؟ سیاہ گوش نے جواب دیا، اس لیے کہ اس کے شکار کا بچا ہوا کھاؤں اور اپنے دشمنوں سے محفوظ رہوں، میں‌ شیر کے دبدبہ میں حفاظت سے زندگی بسر کررہا ہوں اور یوں دوسرو‌ں کی دشمنی سے محفوظ ہوں۔

بادشاہ اس کی بات غور سے سن رہا تھا۔ وزیر نے اسے نرم اور اپنی طرف متوجہ پایا تو مزید حکمت و دانائی کے موتی بکھیرے۔ کہنے لگا، بادشاہ سلامت! دانا کہتے ہیں بادشاہوں کا مزاج بدلتا رہتا ہے، ان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ کیوں کہ ایک وقت تو وہ سلام کرنے اور آداب بجا لانے پر رنجیدہ اور ناراض ہوسکتے ہیں اور دوسرے وقت گالیاں کھا کر انعام دیتے ہیں۔

بادشاہ پر اس کی باتوں‌ کا بہت اثر ہوا۔ اس نے اپنے سابق وزیر اور حال کے اس درویش مزاج شخص کو درباری منصب قبول کرنے پر مجبور نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور عزت کے ساتھ رخصت کردیا۔

درویشوں کی صحبت میں اس دنیا اور جاہ و منصب کی حقیقت سے واقف ہوجانے والے اس شخص نے دربار سے رخصت ہوتے ہوئے کہا کہ اگر انسان اپنی عزت اور مرتبہ کو پہچان لے تو لازم ہے کہ وہ اس کا لحاظ رکھے، اور دل لگی اور ہنسی مذاق اُن مسخروں کے لیے چھوڑ دے جن کی کسی دربار میں‌ کمی نہیں‌ اور جو ہمہ وقت اس کام کے لیے حاضر رہنا پسند کرتے ہیں۔

( نامعلوم مصنف کی کہانی سے ماخوذ)

Comments

- Advertisement -