کسی ملک کے ایک قصبہ میں کوئی کنجوس شخص رہتا تھا لیکن خدا کی قدرت دیکھیے کہ اس کا بیٹا بڑا بہت دریا دل اور سخی مشہور تھا۔ باپ جس قدر کنجوس تھا، بیٹا اس سے کہیں زیادہ فیاض تھا۔
آخر وہ وقت آیا جب اس کا کنجوس باپ اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوا اور ظاہر ہے کہ اس نے جو مال بچایا تھا اور جو دولت اکٹھا کی تھی، وہ اس کے مرنے کے بعد اولادوں کو مل گئی۔ اس شخص کے فیاض بیٹھے کو جو دولت ملی وہ اس نے فراخ دلی سے خرچ کرنا شروع کر دی۔ وہ اپنے قصبے کے غریب اور نادار لوگوں کی ضروریات پوری کرنے لگا اور کوئی سوالی اس کے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جاتا تھا۔ یہ سب دیکھ کر اس کے ایک خیر خواہ نے اسے سمجھایا کہ دیکھو میاں ایسی دریا دلی بھی اچھی نہیں جو تم کو کنگال کر دے۔ دولت ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے، حالت بدلتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ خزانوں کے مالک پل بھر میں خاک چھاننے لگتے ہیں۔ کچھ اپنے آڑے وقت کے لئے بھی بچا رکھو۔ کون جانے کل کیا ہو۔ اس لڑکے نے یہ سنا تو پوچھا کہ اگر میں نے اسی طرح اپنی دولت غریبوں کو دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور کنگال ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟
اس آدمی نے کہا، یہ کیسی بات پوچھی، کیا تم نہیں جانتے کہ آج متمول ہو اور کل خدانخواستہ مفلس ہو گئے تو فقیروں کی جھولیاں بھرنے والا خود فقیر بن کے دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانا چاہے گا؟ دیکھو میاں میں تمہارے بھلے کی بات کہتا ہوں۔ ہم تو تمہارے خیر خواہ ہیں۔
اس سخی نوجوان نے اس آدمی کا جواب سنا اور بولا ’’اے میرے ہمدرد و ناصح سنو، تم مجھے جس دولت کے بارے میں نصیحت کر رہے ہو، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ بخشے میرے باپ نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے یہ دولت کوڑی کوڑی جوڑ کر جمع کی تھی، جسے آخرت کے سفر پر جاتے ہوئے وہ دوسروں کے لیے چھوڑ گیا ہے۔ یہی معاملہ میرے ساتھ پیش آئے گا۔ میں بھی اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جاؤں گا۔ ایسی صورت میں کیا یہ اچھا نہیں کہ میں اسے مستحق لوگوں میں خرچ کر دوں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ مجھے یقین ہوگا کہ میں اللہ کے گھر میں اس کا اجر پاؤں گا۔ یہاں میرے بعد میں جمع پونجی میری اولاد کیسے اڑائے گی یہ میں نہیں جانتا۔ اس لیے مجھے اپنا کام کرنے دو اور میرے حق میں دعا کرو۔