تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

شاہی اصطبل اور ماشکی کا گدھا

یہ ایک غریب اور محنت کش کی کہانی ہے جو اپنے گدھے پر مشکیں لاد کر لوگوں کے گھروں تک پانی پہنچاتا اور ان سے اپنی محنت اور اس مشقّت کا معاوضہ وصول کرتا۔ سب اسے ماشکی کہتے تھے جو اس کام سے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل ہی بھر پاتا، لیکن کوئی دوسرا ذریعہ معاش اس کی سمجھ نہیں‌ آتا تھا، اس لیے برسوں‌ سے یہی کام کیے جارہا تھا۔

ایک طرف یہ ماشکی صبح سے دن ڈھلنے تک یہ کام کرتے ہوئے تھک جاتا تھا تو دوسری طرف اس کا گدھا بھی پانی سے بھری ہوئی مشکوں‌‌ کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے نڈھال ہوجاتا تھا۔ شہر کے ایک کنویں‌ کے علاوہ کچھ فاصلے پر جنگل کے قریب ایک میٹھے پانی کا چشمہ تھا، جہاں‌ دن میں‌ کئی چکر لگانے پڑتے تھے۔ اب اس گدھے کی حالت ابتر ہوگئی تھی۔ اکثر اسے کھانے کو پیٹ بھر کچھ نہ ملتا اور کام بہت زیادہ کرنا پڑتا تھا۔ اس کی پیٹھ پر زخم پڑ جاتے یا کبھی کوئی چوٹ لگ جاتی تو ماشکی دوا دارو، مرہم پٹّی پر توجہ نہ دیتا اور گدھا تکلیف برداشت کرنے پر مجبور تھا۔ وہ بے زبان ان حالات سے تنگ آکر ہر وقت اپنی موت کی آرزو کرنے لگا۔

ایک دن اس گدھے کو شاہی اصطبل کے داروغہ نے دیکھا تو اس کی حالت پر بڑا رحم آیا۔ اس نے محنت کش سے کہا،’’تمھارا گدھا قریب المرگ ہے، اس کی حالت تو دیکھو، اسے کچھ دن آرام کرنے دو اور پیٹ بھر کر کھانے کو دو۔‘‘ ماشکی نے مؤدبانہ انداز اختیار کرتے ہوئے عرض کیا، ’’مائی باپ! گدھے کو کہاں سے کھانے کے لیے دوں؟ خود میری روٹیوں کے لالے پڑے ہیں، دن رات محنت کرنے کے باوجود بال بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر روٹی نہیں‌ کھلا پاتا۔‘‘

یہ سن کر داروغہ کو اور ترس آ یا۔ کہنے لگا، ’’میاں ماشکی، تم چند روز کے لیے اپنے گدھے کو میرے حوالے کر دو، میں اسے شاہی اصطبل میں رکھوں گا۔ وہ تر و تازہ گھاس ، چنے اور جو کا دانہ کھا کھا کر دنوں میں پھول کر موٹا تازہ ہو جائے گا۔‘‘ ماشکی یہ سن کر خوش ہو گیا اور اپنا مریل گدھا اس کے سپرد کر دیا۔ داروغہ نے اسے لے جا کر شاہی اصطبل میں باندھ دیا۔ وہاں جاکر گدھے کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

ہر طرف ترکی اور عربی النّسل گھوڑے نہایت قیمتی ساز و سامان کے ساتھ اپنے اپنے تھان پر بندھے ہوئے تھے۔ ہر گھوڑے کا بدن خوب فربہ تھا اور ان کی کھال آئینے کی طرح چمک رہی تھی۔ چار چار آدمی ایک ایک گھوڑے کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔ کوئی کھریرا کر رہا تھا، کوئی مالش، کوئی دانہ کھلا رہا تھا، کوئی پیٹھ پر محبت سے تھپکیاں دینے میں مصروف تھا۔ پھر گدھے نے یہ بھی دیکھا کہ گھوڑوں کے تھان نہایت صاف ستھرے ہیں۔ لید کا نام و نشان نہیں۔ لوہے کی بڑی بڑی ناندوں میں ہری ہری گھاس، جَو اور چنا بھیگا ہوا ہے۔

یہ دیکھ کر گدھے نے اپنی تھوتھنی اٹھائی اور خدا سے فریاد کی ’’یا الٰہی! یہ کیا تماشا ہے، بے شک میں گدھا ہوں، لیکن کس جرم کی پاداش میں میرا برا حال ہے اور کس لیے میری پیٹھ زخموں سے بھری ہوئی ہے؟ کیا میں تیری مخلوق نہیں ہوں؟ کیا تُو نے مجھے پیدا نہیں فرمایا اور کیا تُو میرا ربّ نہیں ہے؟ پھر کیا سبب ہے کہ یہ گھوڑے اتنی شان و شوکت سے رہیں، دنیا کی بہترین نعمتیں ان کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوں اور میں دن بھر بوجھ ڈھو کر بھی اپنے مالک کی مار پیٹ اور گالیاں کھاؤں؟‘‘

ابھی گدھے کی یہ فریاد ناتمام ہی تھی کہ اصطبل میں ہلچل مچی۔ گھوڑوں کے نگہبان اور خدمت گار دوڑے دوڑے آئے، ان پر زینیں کسیں اور ٹھیک کر کے باہر لے گئے۔ اتنے میں طبلِ جنگ بجنے لگا۔ معلوم ہوا کہ سرحد کے قریب گاؤں میں ایک بڑے گروہ سے جھڑپ چھڑ گئی ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے فوجی گھوڑوں پر سوار ہو کر گئے ہیں۔

شام کے وقت گھوڑے میدانِ جنگ سے اس حال میں واپس آئے کہ ان کے جسم زخموں سے چور اور لہو میں رنگین تھے۔ بعض گھوڑوں کے بدن تیروں سے چھلنی ہو رہے تھے اور تیر ابھی تک ان کے جسموں میں گڑے تھے۔ اپنے تھان پر واپس آتے ہی تمام گھوڑے لمبے لمبے لیٹ گئے اور ان کے پیر مضبوط رسوں سے باندھ کر نعل بند قطاروں میں کھڑے ہوگئے۔ پھر گھوڑوں کے بدن میں پیوست تیر کھینچ کھینچ کر نکالے جانے لگے۔ جونہی کوئی تیر باہر آتا، گھوڑے کے بدن سے خون کا فوارہ بلند ہوتا۔

جب گدھے نے یہ تماشا دیکھا تو مارے ہیبت کے روح کھنچ کر حلق میں آگئی۔ بدن کا ایک ایک رونگٹا کانپنے لگا۔ خدا سے عرض کی کہ مجھے معاف کر دے، میں نے اپنی جہالت اور بے خبری سے تیرے حضور میں گستاخی کی۔ میں اپنے اس حال میں خوش اور مطمئن ہوں۔ میں ایسی شان و شوکت اور ایسے کروفر سے باز آیا جس میں بدن زخموں سے چور چور ہو اور خون پانی کی طرح بہے۔

سچ ہے کہ میں ان سے بہت بہتر ہوں، مار کھاتا ہوں‌، تیر تو جسم میں‌ پیوست نہیں ہوتے، ڈنڈے پڑنے سے میری ہڈیاں‌ درد کرتی ہیں، لیکن بھاگتے ہوئے ایسے نہیں‌ گرتا کہ ہڈی چور چور ہو جائے، اکثر میری کھال کٹ پھٹ جاتی ہے، لیکن ایسا تو نہیں‌ ہوتا جو ان گھوڑوں کے ساتھ ہوا ہے، میرا مالک دن ڈھلنے پر مجھے ایک کونے میں‌ چھوڑ کر جیسے بھول جاتا ہے اور میں اپنی مرضی سے اپنی جگہ پر گھوم پھر لیتا ہوں، لیکن ان گھوڑوں کے خدمت گار تو دن رات ان کے ساتھ ہی چمٹے رہتے ہیں۔

چند دنوں بعد داروغہ نے ماشکی کو بلا کر گدھا اس کے حوالے کر دیا۔ گدھا پہلے کی نسبت کافی بہتر لگ رہا تھا۔ اس کے مالک نے سوچا کہ اس کا سبب اچھی خوراک اور آرام و سکون ہے، مگر گدھا جانتا تھا کہ اصطبل میں‌ رہ کر‌ اسے جن نعمتوں کے ساتھ اپنی حیثیت اور مقام کا جو احساس ہوا ہے، وہ یہ سب دیکھنے سے پہلے کبھی نہیں‌ ہوا تھا۔ گدھا یہ سمجھ چکا تھا کہ جو جہاں‌ ہے، وہیں‌ عافیت اور چین سے ہے اور ہر چیز کی آرزو نہیں‌ کرنا چاہیے۔

Comments

- Advertisement -