قصہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے ایسا شفا خانہ قائم کیا جس میں مفت علاج کے ساتھ مریضوں کو صحت یاب ہونے تک قیام و طعام پر ایک دمڑی تک خرچ نہیں کرنا پڑتی تھی بلکہ انواع و اقسام کی نعمتیں اور دیگر مراعات بھی میسر تھیں۔ سو، چند ہی روز میں شفا خانہ مریضوں سے بھر گیا۔
شفا خانہ ایسا بھرا کہ مزید مریضوں کو داخل کرنا ممکن نہ رہا۔ شروع میں حکمیوں کا خیال تھا کہ معمولی تکلیف اور عام درد اور دوسری شکایات میں مبتلا مریض جلد ہی صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ ایسا ہوا بھی، لیکن ان مریضوں کی تعداد بہت کم تھی جو صحت یاب ہوکر شفا خانہ چھوڑ گئے۔ اکثریت ایسی تھی جو مسلسل علاج اور بھرپور توجہ کے باوجود کوئی نہ کوئی شکایت لے کر بیٹھ جاتی اور حکیم ان کے نئے یا مستقل مرض کی تشخیص کرنے میں ناکام ہورہے تھے۔ ان میں سے کسی کو مستقل جسم میں درد رہتا، تو کسی کو کوئی ایسا روگ لاحق تھا کہ وہ اس سے نجات ہی نہیں حاصل کر پا رہا تھا۔ الغرض صورتِ حال بہت پریشان کن ہوگئی۔ نتیجہ یہ کہ بہت سے مریضوں نے شفا خانہ میں ایک طویل عرصہ گزار دیا۔
جب بادشاہ کو یہ بتایا گیا کہ بڑے بڑے حاذق حکیموں کے علاج سے بھی مریض صحت یاب نہیں ہورہے اور شفا خانے میں گنجائش باقی نہیں تو بادشاہ بھی پریشان ہوا۔ اس نے اعلان کروایا کہ جو حکیم ان عمر بھر کے روگیوں کا روگ دور کرے گا اُسے انعام و اکرام اور خلعتِ فاخرہ سے نوازا جائے گا۔ بڑے بڑے حکیم اور ماہر اطبا آئے مگر ’منہ پِٹا کر‘ چلے گئے۔ آخر کو ایک حلوائی کا بیٹا دربار میں آیا اور دعویٰ کیا کہ وہ چند ساعتوں میں ایسے تمام روگیوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کرسکتا ہے۔ بادشاہ نے کہا ’’چلو، تم بھی قسمت آزما لو۔‘‘
اس لڑکے کو شفا خانہ لے جایا گیا جہاں پہنچ کر اس نے ایک بڑا سا کڑھاؤ، منوں تیل اور ٹنوں کے حساب سے لکڑیاں منگوا لیں۔ سب کچھ آگیا تو لکڑیاں جلا کر آگ دہکائی گئی۔ آگ پر کڑھاؤ چڑھایا گیا۔ کڑھاؤ میں تیل کھولایا گیا۔ تیل جوش مارنے لگا تو حلوائی کے فرزند نے شفا خانے کے عملے سے کہا کہ کسی بھی ایسے مریض کو لے آؤ جو برسوں سے یہاں پڑا ہے۔ ایک مریض جو چلنے پھرنے سے قاصر تھا، اسے پلنگ پر لاد کر لایا گیا۔ حلوائی کے پُوت نے پوچھا: ’’بڑے صاحب! آپ کب سے شفاخانے میں داخل ہیں؟‘‘
معلوم ہوا: ’’پندرہ برس سے۔‘‘
پوچھا: ’’ ٹھیک نہیں ہوئے؟‘‘
جواب ملا: ’’نہیں، یہ تکلیف ہے، وہ تکلیف ہے، یہاں درد ہے، وہاں درد ہے۔‘‘
اس لڑکے نے جو معالج بن کر آیا تھا، اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور تسلّی دی کہ وہ ابھی اسے ٹھیک کردے گا۔ پھر اس نے کارندوں سے کہا: ’’اس کا مرض میں جان گیا ہوں۔ اب اس کا علاج شروع کرتے ہیں، اسے ڈنڈا ڈولی کر کے لے جاؤ اور کھولتے تیل کے کڑھاؤ میں اس کی ٹانگیں تین مرتبہ ڈبو دو۔ اس کے بعد دونوں بازوؤں کو تین مرتبہ کھولتے تیل میں ڈالنا ہوگا۔ اور دیکھو بہت احتیاط سے یہ کام کرنا ہے۔ بزرگ کو کڑھاؤ میں مت گرا دینا۔‘‘ یہ سنتے ہی لاعلاج بابا یکلخت چھلانگ مار کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا: ’’نہیں، نہیں۔ حکیم جی! میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں، بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے میں اچھل کود کرنے لگا اور سب کو چل کر دکھایا۔ حکیم نے کہا: ’’اب تم شفا خانے کے ہر کمرے میں جاؤ، ہر مریض کو بتاؤ کہ ’میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں۔‘ پھر شفا خانے سے باہر نکل جاؤ۔‘‘ اس کے بعد اُس کے سامنے ایسے چند اور مریض لائے گئے اور ان کے لیے بھی اس نوجوان حکیم نے وہی علاج تجویز کیا جو پہلے مریض کے لیے کیا گیا۔ وہ بھی طریقۂ علاج سن کر فوراً ٹھیک ہوگئے اور ہر قسم کا درد کافور ہوگیا یوں اس حکیم نے کچھ ہی دیر میں سارے مریض ٹھیک کر دیے اور شفا خانہ ان ہڈ حرام اور مفت خوروں سے خالی ہوگیا۔
بادشاہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور حلوائی کے فرزند کو انعام و اکرام کے ساتھ خلعت سے نوازا گیا۔
(لوک ادب سے انتخاب)