سامنے کتابوں کی ایک دکان نظر آئی، لکھا تھا “ڈبلیو ایچ سمتھ اینڈ کمپنی.‘‘ (ڈبلیو ایچ سمتھ اینڈ سنز) یہ نام میں نے پہلے کئی بار سنا تھا۔
میں دکان کے اندر چلا گیا اور کتابوں کا جائزہ لینے لگا۔ میں نے بڑے سکون سے ایک دھیلا خرچ کیے بغیر کوئی دو گھنٹے وہاں گزارے۔ تازہ کتابوں کی مفت خوشبو سونگھی، بلاقیمت کئی کتابوں کے گرد پوش اور دیباچے پڑھے اور اس قلیل عرصے میں مجھے اتنی کتابوں اور اتنے مصنفوں کے نام یاد ہوگئے کہ میں آئندہ دس سال تک کوئی کتاب پڑھے بغیر کافی ہوٹل میں دانشورانہ بحث (Intellectual Discussion) میں حصہ لے سکتا ہوں۔
جب مفت کی کتب بینی سے سیر ہو گیا تو خیال آیا، بے چاروں کا بہت استحصال کر چکا ہوں اب ایک آدھ کتاب خرید بھی لینی چاہیے۔ میری پہلی نظر (فرانسیسی فلسفی) سارتر (Jean-Paul Sartre) کی کتابیں تھیں۔ میں نے دو تین طرف نظر دوڑائی لیکن اس کی کوئی کتاب نظر نہ آئی۔ میرا تجسس اور پریشانی دیکھتے ہوئے ایک سیلز گرل میرے پاس آئی اور کہنے لگی:
”کیا میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں؟‘‘
”جی ہاں۔‘‘
”خدمت بتائیے۔‘‘
میں نے اِدھر اُدھر دیکھا، وہاں بہت سے آدمی تھے، اس کے علاوہ ایک بُڈھا کاؤنٹر پر بیٹھا ہمیں تاڑ رہا تھا۔ میں نے اسے کوئی نازیبا خدمت بتانے کے بجائے صرف یہ کہا:
”مجھے سارتر کی کتابیں چاہییں۔‘‘
وہ کچھ نہ سمجھی، میں نے اپنا جملہ دہرایا لیکن پھر بھہ وہ خالی الذّہن ہی رہی۔ میں نے سوچا یہاں آنے سے پہلے ”اپنی مدد آپ‘‘ کے ذریعے جو فرنچ سیکھی تھی اور ”Teach Yourself Books‘‘ کی 28 مشقیں بھی حل کر لی تھیں، انہیں کیوں نہ آزمایا جائے۔ میں نے صبح ڈرائیور کی مدد کرنے کے لیے بھی ان اسباق کا سہارا لیا تھا لیکن وہ شاید کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے استفادہ نہ کر سکا تھا، یہ لڑکی تو خاصا ہونہار لگ رہی تھی۔ میں نے اسے اپنی فرنچ سے مستفید کیا، لیکن وہ بھی کوری نکلی، وہ بھی میری فرنچ سمجھنے سے قاصر رہی۔ اتنے میں ایک انگریزی دان سیلز گرلز آئی تو میں نے اپنے فرانسیسی جملوں کا مفہوم اُسے انگریزی میں سمجھایا لیکن اس کے بھی کچھ پلّے نہ پڑا۔ میں نے سوچا اگر فرانس کے صدر مقام پر تعلیم کا یہ حال ہے تو یہ یورپی منڈی میں کیا خاک کردار ادا کرے گا….
وہاں دوسری بات جو میرے مشاہدے میں آئی یہ تھی کہ جونہی سرخ بتی کی وجہ سے گاڑیوں کا ریلہ رُکتا ہے تو اسٹیرنگ (Steering) پر بیٹھے صاحب کتاب نکال کر فوراً مطالعہ شروع کر دیتے ہیں اور جب بتی سبز ہوتی ہے تو چل پڑتے ہیں اور کھلی کتاب الٹا کر پاس رکھ لیتے ہیں تا کہ اگلے اسٹاپ پر مطلوبہ صفحہ تلاش نہ کرنا پڑے۔ میں نے ایک گھنٹے میں کم از کم گیارہ آدمیوں کو یوں مطالعے میں مصروف دیکھا۔
(اس پارے کے مصنّف صدیق سالک ہیں جو مزاح نگاری میں نام و مقام رکھتے ہیں، یہ ان کے پیرس میں قیام کے دنوں کی شگفتہ روداد سے نقل کیا گیا ہے)