ہر زبان کی طرح اردو کے بھی بڑے نقیب اس زبان کے اخبار ہیں جس خطۂ ملک میں بھی وہ نکل رہے ہوں۔
حیدرآباد دکن کی صحافت ایک زمانے میں بہت پست اور بالکل مبتدیوں کے درجہ کی تھی۔ راہ نمائے دکن اب دکن کا ایک معروف و مقبول روزنامہ ہے۔ سب سے پہلے اس نے اپنے نقشِ اوّل، رہبرِ دکن کے نام سے معیارِ حال کے مطابق روزنامہ نکالا اور جہاں تک مسلمانوں کی نمائندگی کا تعلق ہے، اپنی سنجیدگی، معقولیت، میانہ روی اور اسلامیت کا نقش دوسروں کے دل پر بٹھائے ہوئے ہے۔
دوسرا قابلِ ذکر روزنامہ سیاست نظر پڑا اور اس کے مدیر و سَر دبیر عابد علی خاں سے بھی نیاز حاصل رہا۔ خاصا سنجیدہ، معقول پرچہ ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ اپنا ظریفانہ کالم خوب سنبھالے ہوئے ہے، ورنہ لوگ ظرافت اور توہین، دل آزاری اور پھکڑ پن کے درمیان فرق ہی نظر انداز کرجاتے ہیں۔
ایک تیسرا مقبول و کثیر الاشاعت روزنامہ ملاپ کے نام سے دیکھنے میں آیا۔ یہ دلی و جالندھر کے مشہور روزنامہ ملاپ کا حیدرآبادی ایڈیشن ہے اور مسلمانوں کی دل آزاری کے بغیر کام یابی سے نکل رہا ہے۔ ایڈیٹر شری یدھ ویر ہیں۔
جو پرچے اکثریت کے ہاتھ میں ہیں انھیں اپنے قلم کی ذمے داری کا خاص طور پر احساس رکھنا ہے، ملکی بناؤ بگاڑ دونوں بڑی حد تک انہی کے قلم کی روش سے وابستہ ہے۔
اردو صحافت محض اردو زبان کی صحافت نہیں بلکہ اردو کلچر کی مظہر و ترجمان ہے۔ اردو محض ایک زبان کا نام نہیں اردو کلچر یا تہذیب خود ایک مستقل چیز ہے اور اس کی جِلا صرف ایک لفظ، شرافت میں مضمر ہے۔
(ممتاز عالم اور ادبی شخصیت مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی یادیں۔ انھوں نے 1963 میں حیدر آباد دکن میں چند روز قیام کیا اور وطن واپسی پر اپنی یادیں سپردِ قلم کی تھیں۔ یہ سطور ان کے مختصر سفر نامے سے لی گئی ہیں)