نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
"وہ رہا ان میں سے ایک۔ وہ سیڑھیوں کے پاس ہے۔‘‘
دانیال نے گھبرا کر مڑ کر دیکھا۔ نکولس جبران کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو سیڑھیوں تک پہنچ گیا تھا۔ جب تک وہ پہنچتے، جبران سیڑھیاں چڑھ چکا تھا۔ اس کے بعد وہ ایسا سرپٹ بھاگا کہ خانقاہ پہنچ کر ہی دم لیا۔ تاہم وہ اندر نہیں گیا بلکہ عقب میں چھپ گیا۔ عین اسی وقت دانیال بھی دوسرے راستے سے وہاں پہنچا۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ ’’فیونا کہاں ہے؟‘‘ جبران نے بے قابو سانسوں پر قابو پانے کی ناکام کوشش کی۔
’’پتا نہیں، وہ مجھے کہیں نظر نہیں آئی۔‘‘ دانیال نے پریشان ہو کر جواب دیا۔ ’’وہ بھی بس پہنچنے والی ہوگی یہاں۔‘‘ جبران نے پورے یقین کے ساتھ کہا۔
تینوں سپاہی جبران کا پیچھا چھوڑ چکے تھے، جیسے ہی وہ پلٹے انھیں چوٹی پر فیونا نظر آ گئی۔ وہ ایک اور طرف سے سیڑھیاں چڑھ کر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچی تھی۔
’’آہا، اب مچھلی جال میں پھنسی ہے… آ…آ… میں تمھارا ہی انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ نکولس گدھا کھینچتے ہوئے سیڑھیوں کے پاس آکر رک گیا۔ اب فیونا سیڑھیوں کے درمیان پھنس گئی تھی لیکن سپاہیوں نے نکولس کو نیچے نہیں دیکھا تھا اور وہ اب بھی فیونا سے خاصے فاصلے پر تھے، چناں چہ وہ سمجھے کہ فیونا نیچے کی طرف بھاگ رہی ہے، اس لیے وہ دوسری طرف کی سیڑھیوں پر بھاگتے ہوئے نیچے اترے۔ فیونا نے یہ دیکھا تو مزے کے ساتھ واپس چوٹی پر پہنچی اور شوخی سے نکولس کا منھ چڑانے لگی۔ ’’آؤ نا… پکڑو مجھے۔‘‘
سپاہی نکولس کے پاس کھڑے ایک دوسرے جھگڑنے لگے کہ وہی اس کا پیچھا کرے لیکن تینوں تھک چکے تھے۔ کسی میں بھی فیونا کا پیچھا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ فیونا پہاڑ پر پہنچتے ہی خانقاہ کی طرف دوڑ پڑی۔ کچھ دیر بعد وہ تینوں خانقاہ کے سامنے کھڑے تھے۔ ایسے میں دانیال نے پینٹ کی جیب سے پتوں سے بھری شاخیں نکال لیں۔
’’ارے یہی تو ہے لیڈی مینٹل۔‘‘ جبران اچھل پڑا۔
دانیال نے مسکرا کر فیونا کی طرف دیکھا۔ ’’میں جن جھاڑیوں میں چھپا تھا یہ وہیں پر اگا ہوا تھا۔‘‘
’’ہمیں ان پتوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے ہوں گے۔ پھر اسے اینٹ کے قریب پھینکنا ہوگا۔ اور بچھو خود ہی وہاں سے بھاگ جائیں گے۔جیسے ہی بچھو وہاں سے دور ہٹیں گے ہم میں سے کوئی اندر جا کر اینٹ اٹھا لائے گا۔‘‘ جبران نے انھیں سمجھایا۔
’’لیکن اینٹ لینے کون جائے گا؟‘‘ دانیال نے سب سے اہم سوال پوچھا۔
’’میں۔‘‘ فیونا فوراً مضبوط لہجے میں بولی۔ ’’میں جاؤں گی اندر، اب جلدی سے ان پتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرو۔‘‘ تینوں نے پتوں کو ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا اور فیونا نے سارے ٹکڑے ہاتھوں کے پیالے میں بھر لیے۔ ’’احتیاط سے۔‘‘ جبران نے جلدی سے تاکید کی۔ ’’تم جہاں جہاں پتے گراؤ گی، وہاں سے بچھو دور ہٹیں گے اور ایک راستہ بن جائے گا۔ بچھوؤں کو اس کی بو ناپسند ہے، لیکن مجھے یہ علم نہیں کہ اس کی بو کتنی دیر رہے گی یا وہ کتنی دیر تک اسے برداشت کریں گے؟‘‘
وہ تینوں خانقاہ کے دروازے پر ٹھہر گئے۔ فیونا نے اندر دیکھا تو اس کی اندر کی سانس اندر اور باہر کی سانس باہر رہ گئی۔ اس کی آنکھیں خوف سے باہر ابل آئیں۔ اندر فرش سے لے کر چھت تک سیاہ چادر تنی ہوئی تھی۔ بچھو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اگر کوئی ان کے درمیان پھنس جاتا تو یہ بچھو اسے ایک منٹ کے اندر اندر چٹ کر سکتے تھے۔ فیونا گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی۔ ’’نہیں، یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ اگر چھت سے کوئی بچھو میرے سر پر گر گیا تو پھر… کیا میرے سر پر بھی عفریت ہائیڈرا کی طرح سانپوں والے سر اگیں گے! نہیں… نہیں…‘‘ اس نے جھرجھری لی۔
ایسے میں جبران نے کہا: ’’فرض کرو اگر ہم میں سے کوئی بھی اندر نہیں جائے گا تو کیا ہوگا؟ یہی نا کہ اینٹ نہیں حاصل کر سکیں گے، نہ ہم نہ بادشاہ دوگان کا کوئی وارث اسے حاصل کر سکے گا، اس لیے یہ محفوظ ہے، چناں چہ چلو واپس گھر چلتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم میں سے کوئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘‘
فیونا نے پریشانی کے عالم میں آنکھیں بند کر کے خود کو ہمت دلانے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بادشاہ کیگان کا دم توڑتا زخموں سے چور جسم آگیا۔ اس نے ایک بار پھر جھرجھری لی اور آنکھیں کھول دیں۔ ’’نہیں… میں اندر جاؤں گی۔‘‘ اس نے ساری ہمت جمع کی اور دل مضبوط کر کے چند قدم آگے بڑھ کر اندر داخل ہو گئی۔ اس نے پتوں کے چند ٹکڑے اپنے سامنے پھینک دیے۔ بچھو تیزی سے دور ہٹ گئے۔
(جاری ہے……)