نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اینگس ایک کے بعد ایک ہوٹل چیک کرنے لگا کہ کہیں اجنبی لوگ تو نہیں ٹھہرے ہوئے۔ اکثر ہوٹلوں میں تمام کمرے بک تھے۔ اکثریت جوڑوں کی تھی۔ ہائی لینڈ تھیسل ہوٹل کے مالک بونی مک فرلینڈ نے کہا: ’’یہاں کوئی اکیلا شخص نہیں ٹھہرا ہوا، آپ جا کر بی اینڈ بی چیک کریں۔‘‘
اینگس کو اس کا مشورہ پسند آ گیا، اور وہ سیدھا مک ڈوگل کے بی اینڈ بی پہنچ گئے۔ چھوٹے سے باغیچے میں قرمزی رنگ کے پھول کھلے ہوئے تھے، وہ پھولوں کے پاس سے گزرے اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئے۔ ’’ہیلو ایلسے!‘‘
لیکن جب ان کی آواز پر کوئی نہیں آیا تو انھوں نے چیخ کر کہا: ’’کوئی ہے؟‘‘
’’اینگس یہ تم ہو؟‘‘ ایلسے اپنے ایپرن پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے آ گئی۔ ’’تمھیں دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے، میں کچھ پکا رہی تھی، آؤ، کچن میں آ جاؤ۔‘‘
’’اچھی خوش بو ہے۔‘‘ اینگس لکڑی کی ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ ایلسے نے خوش ہو کر کہا: ’’اگر تم پسند کرو تو میں اس میں سے کچھ پیک کر کے تمھیں دے دوں گی لے جانے کے لیے، کیوں کہ تمھیں پکا کر کھلانے والی کوئی عورت بھی تو نہیں ہے!‘‘
’’نہیں… شکریہ۔‘‘ اینگس نے جھینپ کر کہا۔ ’’میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، کیا تم نے یہاں کچھ عجیب سے واقعات ہوتے دیکھے ہیں گزشتہ چند دنوں کے دوران۔‘‘
’’تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ ایلسے کام روک کر ان کی طرف مڑی۔ ’’حالاں کہ ایسا ہی ہوا ہے یہاں۔ کئی معزز لوگوں سے زیورات چوری ہوئے اور بٹوے غائب ہوئے۔ رات کو یہاں عجیب سی آوازیں سنی جاتی ہیں۔ کیا تمھارا اشارہ ان ہی کی طرف ہے؟‘‘
’’کیسی عجیب آوازیں؟‘‘ اینگس نے پوچھا۔ ’’چھت پر چلنے پھرنے اور کچھ ٹوٹنے کی آوازیں۔ چند مہمانوں نے ناشتے پر شکایت کی کہ رات کو ان کی کھڑکیوں کے زور سے بند ہونے کی آوازیں آئی ہیں۔ ایک نے تو شکایت کی کہ اس کی کھڑکی کے پاس کسی کا ہیولا گزرا۔‘‘
’’اوہ… یہ تو بہت عجیب ہے۔ کیا خیال ہے یہاں کوئی بھوت ہے؟‘‘ اینگس نے ایلسے کو ڈرانے کے لیے کہا۔ ’’ہم اسکاٹ لینڈ کے اس بلند علاقے میں رہ رہے ہیں، کس کو پتا، ہو سکتا ہے یہاں کوئی افسردہ بھوت رہتا ہو!‘‘
ایلسے اچھل پڑی۔ ’’یہاں بی اینڈ بی میں بھوت!‘‘ وہ ایک ہاتھ میں چمچا پکڑے آنکھیں پھاڑ کر بولی: ’’ٹھیک ہے، یہ بہت پرانا ہے لیکن بھوت اور یہاں، نہیں اینگس، یہ فضول بات ہے!‘‘
اینگس نے مسکرا کر فوراً موضوع بدلا: ’’اچھا بتاؤ یہاں کوئی اکیلا شخص آ کر ٹھہرا ہوا ہے؟‘‘ ایلسے نے انھیں گھور کر دیکھا اور پھر کندھے اچکا کر کہا: ’’ہاں، برطانیہ سے ایک شخص آیا ہوا ہے۔ وہ ایک لکھاری ہے، اسے پرسکون اور خاموشی والی جگہ چاہیے تھی۔ اچھا نوجوان ہے، بس اپنے کام سے کام رکھتا ہے، اس کا نام ڈریٹن اسٹیلے ہے۔‘‘
’’ڈریٹن اسٹیلے۔‘‘ اینگس نے دہرایا۔ ’’کیا وہ اس وقت یہاں موجود ہیں، میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ہاں، وہ دوسری منزل پر ہے، چلو، مل آتے ہیں۔‘‘ دونوں سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر آ گئے۔ ایلسے نے ایک کمرے کے دروازے پر دستک دی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ اندر موجود ڈریٹن نے کمرے کے باہر آوازیں اور پھر دستک سنی تو اسے خطرے کا احساس ہوا۔ وہ فوراً کھڑکی کھول کر نیچے باغیچے میں کود گیا۔
’’اوہ شاید وہ یہاں نہیں ہیں۔‘‘ ایلسے نے کہا۔ ’’میں تو سمجھی تھی کہ وہ اپنے کمرے میں ہی ہیں۔ خیر تمھیں تو پتا ہے کہ میں یہاں آنے جانے والوں کو یاد نہیں رکھ پاتی۔‘‘
اینگس نے کہا کہ اگر وہ آئے تو انھیں کال کر کے مطلع کر دے۔ اینگس جانے لگے تو ایلسے نے انھیں اپنے چند اسپیشل رول کاغذ کے لفافے میں ڈال کر زبردستی تمھا دیے، ساتھ میں اورنج مارملیڈ کی ایک چھوٹی سی بوتل بھی دے دی۔ اینگس نے شکریہ ادا کیا اور گھر کی طرف چل دیے۔ ڈریٹن ان کا تعاقب کرنے لگا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اینگس اس کے بارے میں کیوں پوچھتا پھر رہا ہے۔ اینگس بھی ڈریٹن سے متعلق اپنا دماغ دوڑانے لگے، اور چلتے چلتے بڑبڑانے لگے: ’’میرا خیال ہے میں نے گم شدہ وارث ڈھونڈ نکالا ہے!‘‘