اتوار, دسمبر 29, 2024
اشتہار

پندرھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

اینگس کچھ لمحوں کے لیے ٹھہرے، پھر گہری سانس لے کر بولے۔ "میں اس ساری کہانی کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں سمجھا ہوں۔ تاریخ نویس کے نوٹس سےجو تصویر بن کر سامنے آئی ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے۔ شہنشاہ رالفن کا پایۂ تخت یعنی بورل آج کے مشرق وسطیٰ میں کہیں جزیرہ نمائے عرب کے آس پاس تھا۔ شاید یہ جگہ یمن ہو لیکن میں کچھ یقین سے نہیں کہ سکتا۔ اتنا ضرور ہے کہ وہ اس علاقے کا نہیں تھا کیوں کہ رالفن مشرق وسطیٰ کا نام نہیں ہے۔ یہ نام روسی زیادہ لگتا ہے یا مشرقی یورپی یا پھر فونیزی۔ بادشاہ کیگان نے بھی اپنی ابتدائی زندگی سرزمین عرب میں گزاری اور اسکاٹ لینڈ کبھی نہیں آیا۔ حتیٰ کہ اس نے اپنے خاندان سمیت ہجرت کر لی۔ یہ 1070 بعد مسیح کا دور تھا۔ یہ برطانیہ پر ولیئم فاتح کے حملے سے کچھ زیادہ بعد کی بات نہیں ہے۔ مجھے اس بات کا کچھ اندازہ نہیں کہ یمن میں کیگان کے پرانے محل کے ساتھ کیا ہوا، کیوں کہ اس کا ذکر ابھی تک نہیں آیا ہے،ممکن ہے جب میں کتاب کو مزید پڑھوں گا تو مجھے اس سوال کا بھی جواب مل جائے گا۔”

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

- Advertisement -

"جادوئی ہیرے کہاں چھپائے گئے ہیں انکل؟” فیونا نے بے قراری سے پوچھا۔

"گزشتہ رات میں نے اسے بہت مشکل سے سمجھا ہے، گیلک کوئی آسان زبان نہیں ہے۔ جب کوئی وارث منتر پڑھتا ہے تو یہ اسے ہیرے کے گرد و نواح میں پہنچا دیتا ہے۔ اس کے بعد وارث خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اسے اپنی اندرونی قوتوں اور عقل کو استعمال میں لا کر درست جگہ ڈھونڈنی ہوتی ہے۔ وارث کو یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ منتر اسے کس ہیرے کے پاس پہنچاتا ہے۔ جب وہ ایک مقام سے ہیرا حاصل کر لیتا ہے تو منتر اسے اس جگہ دوبارہ نہیں لے جاتا۔ ہر مقام ایسا ہے کہ قیمتی پتھر کا وہاں سے خاص تعلق ہے۔ جادوگر نے انھیں جمع کرنے کے لیے دنیا چھان ماری تھی، وہ ایسی جگہوں پر گیا تھا جنھیں اس وقت لوگ جانتے بھی نہیں تھے۔ ہر پتھر انمول اور نایاب ہے۔ بارہ آدمیوں نے یہ قیمتی پتھر وہاں نہیں چھپائے جہاں سے جادوگر نے انھیں لیا تھا۔ یہ عجیب بات ہے لیکن کیا کیا جائے کہ یہ کتاب اسی طرح کی عجیب چیزوں سے بھری ہوئی ہے۔”

"انکل، یہ سب کتنا عجیب ہے، مجھے یقین نہیں آ رہا کہ آپ نے ان سب باتوں کو سمجھ لیا ہے۔ مجھے اس بات پر بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ آپ کو گیلک زبان آتی ہے۔” فیونا نے جذباتی ہو کر کہا۔

اینگس نے سر ہلا کر کہا۔ "فیونا تمھارے پاپا مجھ سے بھی زیادہ بہتر گیلک سمجھتا تھا۔ خیر اب تو یہ فہرست سنو، جہاں قیمتی پتھر چھپائے گئے ہیں۔ اچھا تم لوگ اس طرح کرو کہ یہاں میری کرسی کے قریب آ کر بیٹھو۔ میں انھیں ایک علیحدہ کاغذ پر انگریزی میں نقل کر لیا ہے۔”

اینگس نے زمین پر ایک تہ شدہ کاغذ پھیلا دیا۔ وہ تینوں بے قراری سے آ کر بیٹھ گئے۔ کاغذ پر تفصیل کچھ اس طرح سے درج تھی:

ہائیڈرا، یونان… سیاہ آبسیڈین، ایک سیاہ شیشے جیسا پتھر۔ لومنا جادوگر نے کہا تھا کہ یہ آتش فشانی پتھر ہے جو ایک ایسے آتش فشاں پھٹنے سے بنا تھا جو اس زمین کا پہلا آتش فشاں تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سمندر اور خشکی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے تھے۔ تاہم یہ نہیں لکھا گیا کہ یہ آتش فشاں واقعتاً کہاں پھٹا تھا۔

آئس لینڈ … مرجان، گلابی مائل سرخ قیمتی تاریخی معدنی پتھر۔ لومنا نے یہ پتھر افغانستان میں پایا تھا۔

جرائز سیچلز … موتی۔ اسے جزیرہ تاہیٹی سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ موتی وہاں کی ایک جھیل میں پڑا تھا۔

یوکون، کینیڈا … زمرد۔ اسے کولمبیا کے بارانی جنگلات سے حاصل کیا گیا تھا۔

تسمانیہ … پکھراج۔ یہ پتھر روس میں یورال کی پہاڑیوں سے ملا تھا۔

اردن… یاقوت۔ جادوگر لومنا نے یہ پتھر برما سے چرایا تھا۔

میکسیکو … امبر۔ یہ پتھر بحر بالٹک کی لہروں میں بہ کر ساحل پر آ گیا تھا۔

نیپال… اوپل۔ یہ پتھر رنگ تبدیل کرتارہتا ہے۔ یہ آسٹریلیا میں ملا تھا۔

اسپین… نیلم۔ یہ مڈغاسکر سے لومنا کو ملا تھا۔

ارجنٹینا… تنزانائٹ۔ نیلے رنگ کا یہ قیمتی پتھر تنزانیہ سے ملا تھا۔

ملاوی… الماس۔ یہ جنوبی افریقا کے علاقے لیسوتھو سے ملاتھا۔

منگولیا… الیگزنڈرائٹ۔ اگرچہ یہ پہلی مرتبہ روس سے ملا تھا تاہم لومنا کو یہ انڈیا سے ملا تھا۔

"تو بچو، تم سمجھ گئے ہو کہ کون سا پتھر کہاں چھپایا گیا ہے اور یہ اصلاً کہاں سے حاصل کیا گیا تھا۔” اینگس نے انھیں مخاطب کیا۔

"یہ سب بہت دل چسپ ہے، میں نے ان میں سے چند نام پہلی مرتبہ سنے ہیں۔” جبران بولا۔ فیونا نے کہا میں نے بھی۔

(جاری ہے….)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں