اولاد کی تعلیم و تربیت میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ آج انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے استعمال سے بچّوں کو روکنا یا دور رکھنا تو ممکن نہیں، لیکن ضروری ہے کہ انھیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت اور افادیت سے آگاہی دیتے ہوئے اس کا درست اور تعمیری استعمال سکھایا جائے۔
دوسری طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی بچّوں کی اخلاقی تربیت اور ان کی کردار سازی کے لیے ادب تخلیق کرنے کی ضرورت آج بھی ہے۔ سبق آموز واقعات، کہانیاں اور نظمیں کسی بھی معاشرے میں نسلِ نو کے دل و دماغ کو بیدار اور روشن رکھنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ ادب اپنا کردار اس طرح نبھا سکتا ہے کہ اس کے انسان کے اخلاق، کردار پر گہرے اثرات ہوتے ہیں۔
ایک عام آدمی سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تک ہر شخص نے اپنے بچپن میں کسی نہ کسی حد تک بچّوں کے لیے تخلیق کیا گیا ادب پڑھا یا اپنے والدین اور بزرگوں سے کوئی کہانی یا نظم سنی ہوتی ہے جس کے اثرات ذہن و دل پر کسی نہ کسی حد تک ضرور ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچّوں کو ایسے واقعات اور نظمیں پڑھ کر سنائی اور انھیں یاد کروائیں جو ان کے اخلاق و صفات اور کردار کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
ادیب اور شاعر بچّوں کی عمر، نفسیات، جذبات اور تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہانیاں اور نظمیں لکھتے ہیں۔ یہاں ہم دو ایسی ہی نظمیں نقل کررہے ہیں جو شاہین اقبال اثرؔ کی فکر اور ان کے فنِ شاعری کا نمونہ ہیں۔
مرا ربّ
یہ بادِ صبا کون چلاتا ہے، مرا ربّ
گلشن میں کلی کون کھلاتا ہے، مرا ربّ
مکھی کو بھلا شہد بنانے کا سلیقہ
تم خود ہی کہو کون سکھاتا ہے، مرا ربّ
برساتا ہے بادل کو اثرؔ خشک زمیں پر
گل بوٹے کہو کون اگاتا ہے، مرا ربّ
خوشحال کو خوشحال کیا کس نے بتاؤ
غمگین کا غم کون مٹاتا ہے، مرا ربّ
مانا کہ سما سکتا نہیں ارض و سما میں
پر ٹوٹے ہوئے دل میں سماتا ہے مرا ربّ
صحرا کو مزین وہ بناتا ہے جبل سے
گلشن کو بھی پھولوں سے سجاتا ہے مرا ربّ
خود کھانے و پینے سے مبرّا و منزّہ
گو سب کو کھلاتا ہے، پلاتا ہے مرا ربّ
ہے کون جو حاکم ہے بلا شرکتِ غیرے
یہ نظم و نسق کون چلاتا ہے مرا رب
ستّار ہے عاصی کو وہ رسوا نہیں کرتا
بندے کے معائب کو چھپاتا ہے مرا ربّ
عیدُ الفطر کی آمد آمد ہے۔ اسی مناسبت سے یہ نظم ملاحظہ کیجیے۔
عید
سجدوں سے چاند رات سجاؤ کہ عید ہے
اٹھو علی الصبح نہاؤ کہ عید ہے
اے دوست عیدگاہ کو آؤ کہ عید ہے
رب کے حضور سَر کو جھکاؤ کہ عید ہے
خود اچھے اچھے کھانے پکاؤ کہ عید ہے
چولہا غریب کا بھی جلاؤ کہ عید ہے
مت مولنا خوشی میں گناہوں کی گندگی
اب نیکیوں کا مال کماؤ کہ عید ہے
سینے میں کینہ رکھنا خدا کو نہیں پسند
روٹھے ہوؤں کو بڑھ کے مناؤ کہ عید ہے
وسعت جو دی ہے رب نے، سویاں، مٹھائیاں
خود کھاؤ دوسروں کو کھلاؤ کہ عید ہے
بعدِ مہِ صیام جو غفلت کا ہیں شکار
سوئے ہوئے دلوں کو جگاؤ کہ عید ہے