اردو ادب میں ادا جعفری کا نام بطور شاعرہ اس لیے بھی امتیازی حیثیت کا حامل ہے کہ انھوں نے اپنے اشعار کو شعورِ حیات کے ساتھ بہت دل آویزیٔ فن سے سجایا ہے۔ انھوں نے جس خوش سلیقگی سے اپنے جذبات اور خیالات کو غزل اور نظم کا پیکر عطا کیا، وہ ان کی شناخت بنا۔
ادا جعفری کا اصل نام عزیز جہاں تھا۔ وہ 1924ء میں بدایوں کے اک خوش حال گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ تین برس کی تھیں جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ بعد کا دور ننھیال میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم کے ساتھ اردو فارسی اور انگریزی زبان بھی سیکھی۔ لیکن باقاعدہ کالج نہیں جاسکیں اور گھر پر ہی پڑھنے لکھنے کے ساتھ مطالعہ کے شوق کو اپنائے رکھا۔ نو سال کی عمر میں انھوں نے پہلا شعر کہا۔ ادا جعفری کی زندگی میں کتابیں اور مظاہر فطرت سے لگاؤ بچپن ہی سے شامل رہا تھا اور اسی محبت نے ان کے اندر چھپی ہوئی شاعرہ کو بیدار کیا تھا۔ ان کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی۔ ادا جعفری اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہیں۔ ان کے متعدد شعری مجموعہ سامنے آئے جن میں شہرِ درد کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے علاوہ ’’جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘ کے عنوان سے انھوں نے خود نوشت سوانح عمری بھی 1995ء میں لکھی۔ 1991ء میں حکومت پاکستان نے ادا جعفری کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔
ادا جعفری کے شعری سفر کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کی ہنگامہ خیز فضا اور تحریک آزادی کے ساتھ اس وقت کے پُر آشوب ماحول میں ادا جعفری نے اپنی فکر اور جذبے کا اظہار کرنے کے لیے شاعری کی صنف کو اپنایا۔ ادا جعفری نے جاپانی صنف سخن ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی اور ایک مجموعہ ”ساز سخن“ کے نام سے شائع کروایا۔ ان کی تصانیف میں ’’حرف شناسائی‘‘، ”ساز سخن بہانہ ہے‘‘، ”سفر باقی ہے‘‘، ”شہر در‘‘، ’’غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ اور ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ شامل ہیں۔
اگر جدید شعر و ادب کے معماروں کا تذکرہ کیا جائے تو ادا جعفری کا نام بھی لیا جائے گا جن کو اکثر شاعری کی دنیا کی خاتونِ اوّل بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اردو شاعرات میں شعور و کیفیت کے ایک نئے سلسلہ کی پیشرو تھیں۔ انھوں نے نسائی جذبات اور ایک خاص فضا سے آگے نکل کر عام موضوعات اور لوگوں کے مسائل کو بھی اپنے اشعار میں پرویا ہے۔
ادا جعفری کی ابتدائی غزلیں اور نظمیں 1940ء کے آس پاس اختر شیرانی کے رسالہ "رومان” کے علاوہ اس وقت کے معیاری ادبی رسالوں "شاہکار” اور "ادب لطیف” وغیرہ میں شائع ہونے لگی تھیں اور ان کی پہچان بن چکی تھی۔ شادی کے بعد وہ پاکستان چلی آئیں اور یہاں انھوں نے شاعری کی کتابوں اور خودنوشت سوانح کے علاوہ قدیم اردو شعراء کے حالات بھی قلم بند کیے۔
شاعرہ ادا جعفری 2014 میں آج ہی کے روز انتقال کر گئی تھیں۔ ان کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی اور اسے خاص طور پر استاد امانت علی کی آواز میں پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی بہت پسند کیا گیا جس کا مطلع ہے۔
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے