احمد فرازؔ کو ان کی انقلابی، احتجاجی اور مزاحمتی شاعری نے دنیا بھر میں شہرت دی، لیکن انھیں منفرد رومانوی لہجے کے شاعر کی حیثیت سے جو مقبولیت حاصل ہوئی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں نوجوانوں کے آئیڈیل بن کر ابھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کے محبوب شاعر بن گئے۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
احمد فراز کی شاعری ایسے استعاروں، تشبیہات اور تلمیحات سے سجی ہوئی ہے جو ان کے کلام کی تاثیر بڑھاتے ہیں۔ غمِ دوراں اور غمِ جاناں کو خوب صورتی سے بہم کر دینے والے احمد فراز نوجوانوں کے اس طبقے کے مقبول ترین شاعر بن گئے جو عنفوانِ شباب میں اپنے ہی رنگ اور ترنگ میں رہتے ہیں اور عشق و محبّت، جینے مرنے کی قسمیں کھانا ان کے لیے سب سے حسین مشغلہ ہوسکتا ہے۔
آج احمد فراز کا یومِ پیدائش ہے۔ وہ 12 جنوری 1931ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سیّد احمد شاہ تھا۔
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہِ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے
احمد فراز کی ایک غزل بہت مشہور ہے جس کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
یہ دو شعر ملاحظہ کیجیے
ایک شہزادی مگر دل کی فقیر
اس کو میری جھونپڑی اچھی لگی
آنکھ بھی برسی بہت بادل کے ساتھ
اب کے ساون کی جھڑی اچھی لگی
ان کا پہلا رومانوی شعری مجموعہ ’’ تنہا تنہا ‘‘منظرِ عام پر آیا اور وہ پاکستان بھر میں نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔
دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
اردو کے اس شاعرِ بے بدل کے مجموعہ ہائے کلام جاناں جاناں، خوابِ گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کروں، درد آشوب، تنہا تنہا، نایافت، نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، میرے خواب ریزہ ریزہ، اے عشق جفا پیشہ کے ناموں سے شایع ہوئے۔