اتوار, نومبر 17, 2024
اشتہار

یومِ وفات:‌ امیر اللہ تسلیم کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

اشتہار

حیرت انگیز

تسلیم، اردو زبان کے ان شعراء میں سے ہیں جن کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے زمانے میں تسلیم نے نہ صرف اپنے کلام کی بدولت نام پایا بلکہ وہ ایک وضع دار، مشرقی روایات کے دلدادہ اور رکھ رکھاؤ والے انسان مشہور تھے جن کی زندگی عسرت اور تنگی میں بسر ہوئی۔

تسلیم نے لکھنوی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ اگرچہ ان کے حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں‌، لیکن سنہ پیدائش 1819ء بتایا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف شعر و سخن کا چرچا تھا۔ لکھنؤ میں ادنیٰ سے اعلیٰ تک ہر کوئی باذوق اور ادب کا شائق۔ اس ماحول میں‌ تسلیم بھی تہذیب کا مرقع اور دین دار شخصیت کے طور پر مشہور ہوئے۔ عربی اور فارسی کی کتابیں‌ انھوں‌ نے اپنے والد اور بھائی سے گھر پر پڑھی تھیں۔

تسلیم کی زندگی بڑی مشکل تھی۔ مالی مسائل اور تکالفی ان کا مقدر بنی رہیں، لیکن افلاس اور تنگ دستی کے باوجود صبر شکر ان کا وظیفہ رہا۔ ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ کبھی امیر اللہ تسلیم کو کسی شاگرد نے بیزاری سے بات کرتے اور کسی کو جھڑکتے نہیں‌ دیکھا۔ وہ ہمیشہ مخاطب کی دل جوئی کرتے اور شاگردوں کو وقت اور توجہ دیتے تھے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد تسلیم نے دوسری شادی کی تھی۔ نماز روزے کے پابند تھے اور دینی امور کا بہت خیال رکھتے تھے۔

- Advertisement -

احمد حسین ان کا نام رکھا گیا تھا، لیکن امیر اللہ کے نام سے مشہور ہوئے اور شاعری میں تسلیم تخلّص اختیار کیا۔ منگلیسی، فیض آباد کا نواحی علاقہ تھا جہاں وہ پیدا ہوئے۔ تسلیم نے شاعری کے ساتھ فنِ خوش نویسی میں کمال حاصل کیا۔ وہ فنِ‌ خوش نویسی میں‌ استاد مشہور تھے۔ اصغر علی نسیم کے شاگرد ہوگئے جو اپنے دور کے ایک استاد شاعر گزرے ہیں۔ تسلیم کے والد محمد علی شاہ کے عہد میں فوج میں ملازم تھے۔ انھوں نے اپنی پیرانہ سالی میں درخواست کی تھی کہ ان کی جگہ بیٹے احمد حسین یعنی تسلیمؔ کو رکھ لیا جائے اور یہ درخواست قبول کرلی گئی۔ سو، تسلیم ایک پلٹن میں شامل ہوئے جسے واجد علی شاہ کے عہد میں ایک واقعے کے بعد ختم کر دیا گیا۔ تسلیم فارغ کیے جانے کے بعد شعرائے شاہی کے زمرے میں داخل ہو کر 30 روپیہ ماہوار پانے لگے۔ گزر بسر کا یہ سلسلہ زوالِ سلطنت کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔

تسلیم نے رام پور کا رخ کیا تاکہ وہاں‌ انھیں کوئی ملازمت مل جائے اور زندگی کی گاڑی کھینچ سکیں۔ لیکن نامراد لکھنؤ لوٹ آئے۔ یہاں انھوں‌ نے نول کشور کے مطبع میں نوکری کی کوشش کی اور کام یاب ہوئے۔ بعد میں نواب علی خاں نے ریاست کا انتظام سنبھالا تو تسلیم کو رام پور طلب کرلیا جہاں وہ ڈپٹی انسپکٹر، مدارس مقرر ہوئے۔ تسلیم کو ازراہِ قدر دانی آخری وقت تک پینشن ملتی رہی۔

فنِ شاعری میں‌ ان کے استاد نسیم دہلوی تھے۔ تسلیم کو اپنے استاد سے بہت عقیدت اور لگاؤ رہا اور ان کی بڑی عزّت کرتے تھے۔ ان کے فیوض و برکات کا تذکرہ بھی تسلیم نے بہت شدّت سے کیا ہے۔ ایک روایت ہے کہ نسیم نے خواب دیکھا کہ وہ کسی عمیق کنویں سے پانی بھر رہے ہیں اور ڈول اس قدر گراں ہے کہ کھینچا نہیں‌ جاتا، تب انھوں نے اپنے شاگرد تسلیم کو پکارا کہ تم جا کر اس کو کھینچ لو۔ تسلیم آگے بڑھے اور ڈول کھینچ لیا۔ اس پر ان کے استاد نسیم دہلوی نے کہا کہ یہ کنواں‌ اس دشوار فن سے تعلق رکھتا ہے۔

امیر اللہ تسلیم 28 مئی 1911ء کو لکھنؤ میں وفات پاگئے تھے۔ ان کے تین دیوان اور متعدد مثنویاں یادگار ہیں۔ مولانا حسرت موہانی انہی کے ایک مشہور اور قابل شاگرد تھے۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں