صوبۂ پنجاب میں سیلاب کے بعد لاہور کے طلبا نے مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں اس وقت کے نام ور شعرا نے شرکت کی۔
اس مشاعرے کی تمام آمدن متأثرینِ سیلاب پر خرچ کی جانی تھی۔ یعنی یہ مشاعرہ جذبۂ خدمت کے تحت منعقد کیا گیا تھا۔ طلبا اس سلسلے میں خاصے پُرجوش تھے۔
مشاعرے کی صدارت کے لیے حفیظ جالندھری کا نام لیا گیا جو قومی ترانے کے خالق بھی تھے۔ اس زمانے میں جمع جوڑ کے بعد اتفاقِ رائے سے طے پایا کہ مشاعرہ گاہ میں داخلے کا ٹکٹ 25 روپے کے عوض جاری کیا جائے گا۔
یہ بھی طے پایا کہ شرکت کے متمنی عام لوگوں کے ساتھ شعرا کو بھی ٹکٹ خریدنا ہو گا۔ غرض یہ کہ سبھی کو اس کارِ خیر میں شامل رکھنا مقصود تھا۔ صدرِ مشاعرہ بھی اس میں شامل تھے۔
طلبا حفیظ جالندھری کو مشاعرے کی دعوت دینے پہنچے اور تفصیل بتائی۔ وہ بہت خوش ہوئے اور ان کے جذبے کی داد دی۔ پھر پوچھا، شعرا کے نام بتائیں۔ اس پر طلبا نے فہرست ان کے سامنے رکھ دی۔
حفیظ جالندھری نے اس فہرست پر نظر ڈالی اور مسکرانے لگے۔ فہرست میں شورش کاشمیری کا نام بھی شامل تھا۔
حفیظ جالندھری نے ان طالبِ علموں کی طرف دیکھا اور بولے۔
کیا وقت آگیا ہے، کم بخت (شورش) کو دو روپے ماہوار پر ٹیوشن پڑھایا تھا، اب 25 روپے کا ٹکٹ خرید کر سننا پڑے گا۔