بدھ, جون 26, 2024
اشتہار

تذکرہ ان شعراء کا جو محکمۂ پولیس سے وابستہ رہے

اشتہار

حیرت انگیز

اردو کے شعری منظر نامہ پر محکمۂ پولیس سے وابستہ بہت سے افراد ہیں جن کے سوانحی کوائف اور نمونۂ کلام قدیم اور جدید تذکروں میں ملتے ہیں۔ لالہ سری رام کے مشہور تذکرہ ’’خمخانۂ جاوید‘‘ کی پانچ جلدوں کی ورق گردانی کی جائے تو بہت سے نام سامنے آئیں گے۔ ریاست بہار جو شعر و سخن کے باب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے یہاں بھی بہت سے ایسے تخلیق کار رہے ہیں جن کا تعلق محکمۂ پولیس سے ہے۔

ضلع سارن (چھپرہ) سے تعلق رکھنے والے سید عزیز الحق ابن سید فضل حق اختر لشکری پوری بھی پولیس آفیسر تھے۔ پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد سب انسپکٹر کے عہدے پر مامور ہوئے، شعر و سخن سے بہت گہرا رشتہ تھا۔ ان کا کلام تاج گیا میں شائع ہوتا رہا ہے، مجلہ ادراک گوپال پور کے ایڈیٹر سید حسن عباس کے حوالے سے تذکرہ شعرائے سارن کے مصنف سمیع بہواروی نے اختر کا نمونۂ کلام درج کیا ہے جس سے ان کی قدرتِ کلامی اور شگفتگیٔ طبع کااندازہ ہوتا ہے۔

ان کا منشا ہے کہ بسمل نہ تڑپنے پائے
ساتھ خنجر کے وہ زنجیر لیے پھرتے ہیں
قصۂ شیخ و برہمن سے ہمیں کیا مطلب
ہم تو دل میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں

- Advertisement -

رسالہ تاج گیا، میں جنوری 1920ء میں ان کی غزل شائع ہوئی تھی جس کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں۔

حسینانِ جہاں کب آشنا ہیں دردِ الفت سے
گلہ بے کار ہے شکوہ عبث ہے بے وفائی کا
دل صد چاک اپنا آج کیسے کام کا نکلا
ہوا سامان زلفِ یار کی عقدہ کشائی کا
جسے دیکھو وہی زخمی پڑا ہے تیرے کوچے میں
کوئی تیغِ ستم کا کوئی ہے دستِ حنائی کا
(بحوالہ تذکرہ شعرائے سارن، سمیع بہواروی)

رضا چھپروی بھی ایک اچھے شاعر تھے جن کا اصل نام احمد رضا کریم تھا۔ وہ جی بی کالج مظفر پور کے گریجویٹ تھے۔ دربھنگہ کے مشہور محقق شاداں فاروقی نے ان کا شعری مجموعہ ’ساغرِ گل‘ کے نام سے مرتب کیا تھا۔ ان کے کلام میں بھی بڑی تازگی و تنوع ہے۔ تذکرہ شعرائے سارن میں ان کا نمونۂ کلام درج ہے،
آج اس عمر کو پہنچے تو یہ معلوم ہوا
راہ جاتی ہے یہی کوچۂ جاناں کی طرف
اب یہ عالم ہے کہ تنہائی میں دَم گھٹتا ہے
دیکھیے کب ہو سفر شہر خموشاں کی طرف
اب تو لے دے کے یہی وحشت دل ہے کہ رضا
آنکھ اٹھتی ہے میری روزن زنداں کی طرف

رضا چھپروی 1906ء میں پیدا ہوئے تھے اور اکتوبر 1971ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔

محسن قاضی پوری بھی محکمہ پولیس میں ہی ملازم تھے۔ کئی زبانوں سے واقفیت تھی۔ انہوں نے اپنی تخلیق کو زیادہ تر نعتوں پر مرکوز رکھا، انہیں کا یہ نعتیہ شعر ہے۔

تذکرہ کرتے ہیں آپس میں ملائک سارے
آجاتا ہے بڑے دھوم سے مہماں کس کا

1865ء میں جمال پور سیوان میں پیدا ہوئے اور رسل پورہ سارن میں 12 اگست 1945ء میں وفات پائی۔

منشی میوہ لال عاجز بھی محکمۂ پولیس میں سب انسپکٹر تھے۔ ضلع گیا، بہار سے ان کا تعلق تھا۔ دربھنگہ میں تعینات تھے۔ ان کے کچھ اشعار ’’گلدستہ پیام یار‘‘ میں ماہ نومبر 1887ء میں اشاعت پذیر ہوئے تھے۔ ’’کلید گنجینۂ توحید‘‘ کے عنوان سے 16 صفحوں کا ایک مختصر مجموعہ 1927ء میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا مجموعہ ’’سر توحید‘‘ کے عنوان سے 1930ء میں شائع ہوا۔ ان کے کلام پر تصوف کا رنگ غالب ہے۔ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے،

عالمِ غیب سے عاجز یہی آتی ہے صدا
کچھ نہیں ہے کہیں مجھ واحدِ مطلق کے سوا
خود ہی طالب ہوں میں خود میں ہوں مطلوب اپنا
خود ہی معشوق ہوں خود عاشقِ شیدا میں ہوں

شبِ ہجراں ہمارے نالہ و آہ
عجب کیا ہے ہلا دیں آسماں تک
دلِ ناداں سمجھتا ہی نہیں کچھ
بھلا اس کو میں سمجھاؤں کہاں تک

صابر بہاری فردوسی بھی کانسٹیبل تھے۔ نالندہ بہار میں اکتوبر 1915ء میں ان کی پیدائش ہوئی۔ پٹنہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کا پورا خانوادہ ہی شعری و ادبی ذوق رکھتا تھا۔ یاسؔ بہاری، شوقؔ بہاری، وجدؔ بہاری آپ کے خاندان کی وہ شخصیتیں ہیں جن کا شمار اپنے زمانے کے اہم شعرا میں کیا جاتا تھا۔ سید احمد اللہ ندوی نے بھی ’’مسلم شعرائے بہار‘‘ میں ان کا ذکر شامل کیا ہے۔ ارشد قمر نے ان کا نمونۂ کلام اپنی کتاب ’شعرائے پلاموں‘‘ میں درج کیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے کلام میں کتنی شائستگی اور سلاست ہے، ان کے چند اشعار:

آپ اگر قتل کا سامان لیے بیٹھے ہیں
ہم بھی کھونے کے لیے جان لیے بیٹھے ہیں
ہیں عجب چیز شہیدانِ محبت ناصح
موت میں زیست کا سامان لیے بیٹھے ہیں
امتحاں کی کبھی پروا نہیں کرتے صابر
سر ہتھیلی پہ یہ ہر آن لیے بیٹھے ہیں
سرمۂ عبرت بنا ہوں چشم عالم کے لیے
میں یہاں مٹتا گیا، سارا جہاں بنتا گیا
راحتِ جاں بن گئی ہر اک مصیبت عشق کی
درد دل جب جب بڑھا روح رواں بنتا گیا

حسرت بکرم گنجوی بھی محکمۂ سی۔ آئی۔ ڈی میں انسپکٹر آف پولیس کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا اصل نام محمد داؤد خان تھا، بکرم گنج ضلع رہتاس، بہار میں 2 جنوری 1937 میں پیدائش ہوئی۔ آپ پولیس میڈل ایوارڈ سے بھی سرفراز کیے گیے۔ شفق سہسرامی سے آپ کو شرفِ تلمذ حاصل ہے، کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ارشد قمر نے دو غزلیں بطور نمونہ پیش کی ہیں، ان سے چند اشعار،
دامن میں لگ گئی ہے کسی گلبدن کی آگ
مجھ کو جلا نہ ڈالے یہ غنچہ دہن کی آگ
ملک و وطن یہ کس طرح جنت نشاں بنے
بجھتی نہیں ہے آج بھی ظلم کہن کی آگ
مظلوم جو ستائے گئے ہیں جہان میں
کتنے ہی گھر جلائے گی ان کے کفن کی آگ

(تحریر و تحقیق: حقانی القاسمی)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں