بدھ, جنوری 22, 2025
اشتہار

دلاور فگار:‌ اردو شاعری کے شہنشاہِ‌ ظرافت کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

اردو شاعری میں طنز و مزاح کے بادشاہ کہلانے والے دلاور فگار نے ایک زمانے میں عام آدمی کے مسائل اور اس کی مشکلات کو اپنے اشعار کی صورت میں اربابِ حلّ و عقد تک پہنچانے کا کام کیا۔ ان کی شاعری گویا عوام کی آواز تھی۔

دلاور فگار مشاعروں میں اپنے ظریفانہ کلام اور انداز کی وجہ سے خوب داد وصول کرتے تھے۔ انھیں اردو کے مزاح گو شعراء میں شہنشاہِ ظرافت کے نام سے شہرت اور امتیاز حاصل ہوا۔ دلاور فگار 21 جنوری 1998ء کو انتقال کرگئے تھے۔

عام آدمی کے مسائل اور دکھوں کو قہقہوں کی پوشاک میں لپیٹ کر طنزیہ انداز میں حکم رانوں کے سامنے لانے والے دلاور فگار کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے ایک تخلیق کار اور معاشرے کے فرد کی حیثیت سے اپنی ذمے داری پوری کی۔ دلاور فگار کا مزاح سخت اور کھردرا نہیں‌ بلکہ یہ خوش دلی اور خوش مذاقی پر مبنی ہے۔ ان کے طنزیہ اشعار بھی تہذیب اور شرافت کے پیمانے پر پورا اترتے ہیں۔ ان کا یہ مشہور قطعہ ملاحظہ کیجیے۔

- Advertisement -

حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی، مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دلاور فگار نے شباب بدایونی کے تخلّص سے سنجیدہ شاعری بھی کی اور ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ بعنوان حادثہ 1954ء شایع ہوا تھا۔ بعد میں انھوں نے تخلّص ہی نہیں اپنا ذوق و طرزِ شاعری ہی بدل لیا اور طنز و مزاح کے میدان میں دلاور فگار مشہور ہوئے۔ اس وقت تک وہ بھارت میں مقیم تھے۔

ان کا خاندانی نام دلاور حسین تھا۔ 1928ء میں بدایوں کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ 1942ء میں ہائی اسکول کے امتحان کام یاب ہوئے۔ والد مقامی اسلامیہ اسکول میں استاد تھے۔ دلاور حسین اس وقت اعلٰی تعلیم حاصل نہیں کرسکے لیکن بعد میں ایم اے کے سند یافتہ ہوگئے۔ کم عمر تھے جب ایک ڈاک خانے میں کام کرنے لگے تھے۔ اسی زمانے میں علم و ادب کا شوق ہوا اور شاعری شروع کی اور بدایوں کے مشاعروں میں پہچان بنانے لگے مگر شباب بدایوں کے نام سے۔ وہ لہک لہک کر اپنی غزلیں سنایا کرتے تھے۔

دس جماعتیں پڑھ لینے کے چار سال بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور بریلی کالج گئے جہاں سے معلّمی کا ڈپلومہ بھی لے لیا اور والد کے سایۂ عاطفت سے محرومی کے بعد 1950ء میں ٹیچنگ شروع کردی۔ 1953ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد معاشیات میں ایم اے۔ 1966ء انھوں نے اردو میں ایم اے کیا اور فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ یہ بھارت میں قیام کے دوران ان کا تعلیمی اور ادبی سفر تھا اور پھر وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں وہ کراچی میں مقیم ہوئے۔

کراچی میں دلاور فگار کو عبد اﷲ ہارون کالج میں بحیثیت لیکچرار اردو پڑھانے کا موقع ملا۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض اس وقت وہاں پرنسپل تھے۔ شہرِ قائد کے مشاعروں میں دلاور فگار شریک ہوتے اور اپنی مزاحیہ شاعری سے سامعین کو قہقہے لگانے پر ہی مجبور نہیں کرتے بلکہ انھیں مسائل کا ادراک کرواتے اور آمادہ کرتے کہ وہ اپنے لیے غوروفکر کریں۔

دلاور فگار کے مزاحیہ شعری مجموعوں میں "انگلیاں فگار اپنی”، "ستم ظریفیاں”، "آداب عرض”، "شامتِ اعمال”، "مطلع عرض ہے”، "خدا جھوٹ نہ بلوائے”، "چراغِ خنداں” اور "کہا سنا معاف کرنا” شامل ہیں۔ مرحوم نے جمی کارٹر کی مشہور تصنیف کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں