اشتہار

غدر اور غالب کی ’’دستنبو‘‘

اشتہار

حیرت انگیز

غدر ہوا اور مغل سلطنت، جو برائے نام سہی ایک عظیم الشّان روایت کا نشان اور ایک مخصوص تہذیب کی علامت تھی، ختم ہو گئی۔

بہادر شاہ ظفرؔ قید کر لئے گئے۔ ان کے حامیوں اور حمایتیوں، ان کے متوسلین اور متعلقین پر آفتیں آئیں اور اس انتشار میں برطانوی حکومت کا تسلط ہوا، جس کے معنی تھے ایک جاگیردارانہ نظام، ایک نیا صنعتی نظام، ایک نئی دیہی معیشت، نئے طبقاتی تعلقات اور نیا انداز فکر، نئی امیدیں اور نئی مایوسیاں، مگر یہ سب دیکھنے اور سمجھنے والوں کے لئے تھا۔

غدر کو کس نے کس نظر سے دیکھا، یہاں اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں لیکن غالبؔ نے اسے جو اہمیت دی ہے وہ نظر انداز کرنے کی چیز نہیں۔ اس سے غالبؔ کے ذہن کا پتہ چلتا ہے۔

- Advertisement -

اپنے خطوط میں انھوں نے غدر کا تذکرہ کثرت سے کیا ہے۔ یہی نہیں ایک مختصر سی کتاب بھی جو روزنامچے کی حیثیت رکھتی ہے، دوران غدر میں ’’دستنبو‘‘ کے نام سے لکھی۔ یہ ایک ذاتی یادداشت ہونے اور تاثرات سے لبریز ہونے کے باوجود بہت کچھ نہیں بتاتی۔ خطوط اور دستنبو کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ،

(1) غالبؔ غدر کو کسی مخصوص طبقہ کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں دیکھ رہے تھے کیونکہ غدر کی طبقاتی نوعیت ان کے سامنے نہ تھی۔

(2) انھوں نے رست خیز بے جا کو یہ کہہ کر ظاہر کیا ہے کہ وہ بعض وجوہ سے اس ہنگامے سے خوش نہ تھے۔

(3) غدر کے زمانے میں ذاتی تکلیفیں اور آلام بھی ان کے لئے روح فرسا تھیں۔

(4) ابتدائی خطوط میں یہ خیال بار بار ملتا ہے کہ غدر کے جو حالات ہیں لکھ نہیں سکتا۔

(5) امرا اور رؤسا اور شہزادوں پر جو مصیبتیں آئیں، ان کے ذکر میں دوستی اور ذاتی غم کا اظہار زیادہ ہے۔

(6) انگریزوں میں سے جو مارے گئے ان سے ہمدردی ہے۔ اس ہمدردی میں بھی ذاتی دوستی اور شناسائی کا خیال زیادہ ہے لیکن ساتھ ہی ان کی خوبیوں کا بھی احساس ہے۔ ’’دستنبو‘‘ میں بھی انھیں ’جہانداران داد آموز، دانش اندر نکو خوائے نکو نام‘‘ کہا ہے۔

(7) غالبؔ کو غدر کے غیرمنظّم ہونے کا احساس ہے۔

(8) انھیں اس کا بھی غمناک احساس ہے کہ انگریزوں نے غدر کے فرو ہونے کے بعد خاص طور سے مسلمانوں کو سزائیں دی ہیں اور دہلی سے باہر نکال دیا ہے۔

(9) باغیوں نے قتل و غارت، لوٹ مار میں امتیاز برتا، غالبؔ اس کے شاکی ہیں لیکن وہ انگریزوں کی ان زیادتیوں سے بھی خوش نہیں جو غدر کے بعد عمل میں آئیں۔

(10) غالبؔ کو مغل حکومت کے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جانے کا کوئی خاص غم نہیں معلوم ہوتا حالانکہ آخری چند سال ان کے دربار دہلی سے وابستگی کے سال تھے۔

ان باتوں کی روشنی میں اگر غالبؔ کے رجحان کا اندازہ لگایا جائے تو واضح ہوگا کہ غدر کے متعلق غالبؔ کوئی گہری سیاسی رائے نہ رکھتے تھے کہ جب حکومت بدلی تو انھیں حیرت نہ ہوئی بلکہ ان کے لئے یہ کوئی ایسی بات ہوئی جس کا انھیں پہلے ہی سے یقین تھا۔ انگریز غدر کے بعد بہت پہلے ہی سے سیاست اور انتظام مملکت میں اتنے دخیل تھے کہ جب وہ باقاعدہ حاکم ہو گئے تو ان لوگوں کو جنھیں غدر سے کوئی نقصان نہیں پہنچا کچھ زیادہ فرق معلوم نہیں ہوا۔ غالبؔ کا نقطۂ نظر اس سلسلہ میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ غدر کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلی کو ایک حقیقت اور انگریزی حکومت کو ایک نئی سلطنت سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ اس لیے ان کے اندر اس نئی حکومت کے خلاف کوئی جذبہ نہیں معلوم ہوتا۔

ان باتوں سے غالبؔ کی وطن دوستی یا قوم پرستی کے متعلق کوئی ایسا نقطۂ نظر قائم کرنا جو واضح طور پر انھیں پرانے جاگیردارانہ نظام کا دشمن، نئی انگریزی سرکار کا خوشامدی بنا دے، صحیح نہ ہوگا۔ غالبؔ کا ادراک غدر کے معاملہ میں ایک حقیقت نگار کا ادارک تھا اور تصور پرست ہونے کے باوجود حالات کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ بعض منطقی نگاہ رکھنے والوں کو یہ بات تضاد کی حامل نظر آئے گی لیکن تھوڑے سے غور سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ غالبؔ کا خلوص اور نظریۂ فن تھا، جو انھیں عقائد میں عینیت پسند اور صوفی بنانے کے باوجود حقیقت پسندی کی طرف مائل کرتا تھا۔ ان کے یہاں شعر اس طرح ڈھلتے تھے،
بینیم از گداز دل، در جگر آتشے چوسیل
غالبؔ اگر دمِ سخن، رہ ضمیر من بری

’’دستنبو‘‘ اور ’’مہر نیمروز‘‘ دیکھنے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ غالبؔ کے پیش نظر کوئی فلسفۂ تاریخ بھی تھا یا نہیں؟ اس کا اندازہ ہو سکے تو غالبؔ کے شعور کا بھی اندازہ لگایا جا سکے گا۔ کیونکہ ایک شخص کا اندازۂ شعور ہی زندگی اور اس کے مظاہر کے متعلق اس کا رویہ متعین کرتا ہے۔ ’’مہر نیمروز‘‘ آغاز آفرینش سے لے کر ہمایوں کے وقت تک کی مختصر تاریخ ہے۔ یہ اس مجوزہ پرتوستان کا پہلا حصہ ہے جس میں تیموری بادشاہوں کی تاریخ بہادر شاہ ظفرؔ تک لکھنے کا کام غالبؔ کے سپرد ہوا تھا۔ غالبؔ اس کا پہلا حصہ ہی لکھ سکے تھے کہ دنیا بدل گئی اور دوسرا حصّہ ’’ماہ نیم ماہ‘‘ وجود ہی میں نہ آیا۔

(غالب کا تفکّر از سید احتشام حسین سے اقتباسات)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں