شیخ عبدالحفیظ سلیم کو اردو ادب میں حفیظ ہوشیار پوری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی ایک غزل پاکستان کے معروف گلوکاروں کی آواز میں بہت مقبول ہوئی اور آج بھی اسے پسند کیا جاتا ہے۔
اس غزل کا مطلع ہے:
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
یہی غزل شاید اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں کے لیے حفیظ کا ایک تعارف اور حوالہ رہ گئی ہے، اور شاید حفیظ ان شعراء میں سے ایک ہیں جن کے کلام اور فن پر بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ 5 جنوری 1912 کو پیدا ہونے والے حفیظ ہوشیار پوری 1973ء میں کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔ اس خوب صورت شاعر کے کلام کے ایک انتخاب پر بطور مرتب ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ لکھتی ہیں:
حفیظؔ کی غزل کی مختصر ترین تعریف ان الفاظ میں کی جا سکتی ہے۔ ان کی شاعری محبت میں تہذیب و شائستگی کی وہ مثال ہے جو جدید اردو غزل کے لیے نئی تو نہیں لیکن کمیاب ضرور ہوتی جا رہی ہے۔
حفیظؔ غزل کی اس روایت سے منسلک ہیں، جس کے سلسلے کی پہلی کڑی میرؔ تھے۔ حفیظؔ کی غزل، غزل کے معیار پر پوری اترتی ہے کہ غزل زخمی ہرن کی آہ کا نام ہے۔ حفیظؔ کی شاعری میں اس آہ کی گونج ہے۔ غزل تیرِ نیم کش کی کسک ہے، یہ چبھن حفیظؔ کی غزل میں جا بجا نظر آتی ہے۔ غزل، محبوب سے باتیں کہنے سننے کا فن ہے، حفیظؔ کی غزل اس سے عبارت ہے۔ غزل ذاتی واردات کا بیان ہے۔ شاعر کائنات کا فرد ہے، چنانچہ کائنات بھی ذات کے حوالے سے غزل میں عیاں ہوتی ہے۔ حفیظؔ کی غزل میں ذات و کائنات کا آہنگ موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ذات نمایاں رہتی ہے۔
حفیظؔ فلسفہ کے طالب علم رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل فلسفیانہ مسائل سے تہی نہیں لیکن ان کی غزل، فلسفیانہ موشگافیوں کا چیستاں نہیں۔ فلسفیانہ خیالات ملتے ہیں جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اسے بیزار نہیں کرتے۔ فلسفیانہ فکر کی نشو و نما کے لیے تین مرحلے ناگزیر ہیں۔ پہلا مرحلہ عقلیت کا ہے، جس سے انسان اپنی ذات اور کائنات کا علم حاصل کرتا ہے۔ دوسرا مرحلہ حسّیت کا ہے کہ اب انسان معلوم کرنے کے بجائے محسوس کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ تیسرا مرحلہ وہ ہے کہ جب انسان عالم معلوم اور عالم محسوس کو کبھی رد کرتا ہے اور کبھی قبول اور نقد و نظر سے کام لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ عقل و حواس دونوں ہی علم کے حصول کے لیے لازمی ہیں۔ حفیظؔ کی غزل اسی معلوم اور محسوس کرنے کا بیان ہے لیکن ان کی غزل ثابت کرتی ہے کہ وہ عقل کی برتری کے قائل نہیں۔
تیری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا
سرحدِ عقل سے گزرے تو یہاں تک پہنچے
حفیظؔ کی غزل کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ انھوں نے غزل کو غزل ہی رہنے دیا، اسے کسی تجربہ گاہ کی حیثیت کبھی نہیں دی جب کہ یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ساٹھ کی دہائی ہر صنف میں تجربات کا ایک طوفان لیے ہوئے ظاہر ہوئی تھی۔ چوک میں تانگہ الٹ جانے سے لے کر گاہک کا کال دیکھ کر دھندا بدل دینے تک سبھی تجربے اور مشاہدے اپنی تمام تر اسلوبی اور موضوعاتی کرختگی و درشتی کے ساتھ غزل میں در آئے تھے۔ وہ تمام موضوعات انتظار، اداسی، تنہائی، محرومی، یافت و نایافت، محبت کی طلب، ترکِ محبت کی آرزو، اپنی ذات کی تلاش وغیرہ، جو ابتدا سے غزل کا حصّہ رہے ہیں، حفیظؔ کی غزل میں بھی موجود ہیں لیکن صرف اس فرق کے ساتھ کہ ان عمومی موضوعات پر ایسے اشعار مل جاتے ہیں جہاں کسی اور شاعر کے تخیّل کی پرواز نہ پہنچ پائی تھی۔ انتظار کے موضوع پر حفیظؔ کا یہ شعر دیکھیے جو آج زبانِ زدِ عام ہے اور جس میں انسانی نفسیات کے ایک گہرے اور پیچیدہ پہلو کو موضوع بنایا گیا ہے۔
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
حفیظؔ کی شاعری میں زمانے کے سیاسی نشیب و فراز کا گہرا شعور بھی ملتا ہے۔ قیامِ پاکستان، ہجرت اور پھر سیاسی رہنماؤں کا طرزِ سلوک سبھی رویّوں کا بیان ہے۔
خوفِ رہزن بھی ہے اندیشۂ رہبر بھی حفیظؔ
منزلیں سخت ہیں آغازِ سفر سے پہلے
حفیظؔ کی غزل اسلوبی لحاظ سے بھی روایتی غزل سے منسلک ہے۔ انھوں نے کلاسیکی انداز سے کبھی صرفِ نظر نہ کیا۔ آسان زبان، سلاست و روانی، مشکل ثقیل و کرخت الفاظ سے گریز نے ان کی غزل کو عام فہم بنا دیا ہے۔ ان کی غزل کا دھیما لہجہ بڑی سے بڑی بات بالکل عام انداز میں کہہ دینے کا فن، کہ قاری پہلے سرسری گزر جاتا ہے پھر سوچتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ یہ خیال اپنے اندر کتنی گہرائی رکھتا ہے۔ ایجاز و اختصار، سادگی، روانی، نغمگی، لطیف انداز بیان، زیر لبی اور مترنم طرز ادا ان کی غزل کے خاص اوصاف ہیں۔
آغازِ محبت سے انجامِ محبت تک
محفوظ ہیں سب یادیں اور یاد ہیں سب باتیں
مختصر یہ کہ حفیظؔ کا کلام انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک عام شعر کہنے والا شاعر زیادہ مشہور ہو جاتا ہے۔ (مشہور اور مستند میں فرق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا) اور کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ ایک اہم اور معتبر شاعر زمانے کی ناقدری کے ہاتھوں پامال ہو کر خاک میں جا سویا اور ساتھ ہی اس کا کلام بھی۔
حفیظؔ وہ شاعر تھے، جو ایک طویل عرصے تک اہم سرکاری عہدے پر فائز رہے۔ وہ زندگی میں اپنا مختصر مجموعۂ کلام بغیر کسی دشواری کے شائع کروا سکتے تھے لیکن فطری بے نیازی اور بے داغ تکمیلیت کی عادت کے باعث وہ ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا اور جو مجموعۂ کلام ان کی وفات کے بعد منصۂ شہود پر آیا وہ ان کی مکمّل نمائندگی نہیں کرتا۔ پھر ان چند خوش قسمت مرحوم شعراء، کہ جن پر ان کی وفات کے بعد مسلسل اور خاصا اہم کام ہو رہا ہے، کے برعکس حفیظؔ کی شاعری کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی وہ متقاضی تھی۔
حفیظؔ کی غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں میرؔ کا سوز، غالبؔ کی ایمائیت، جگرؔ کا ایجاز و اختصار، اصغرؔ کی فلسفیانہ ژرف نگاہی، حسرتؔ کی اخلاقی اقدار کی پاس داری و مہذب و شائستہ انداز اور فراق ؔکی محبوبیت موجود ہے۔
کیا شاعر اپنی ذات میں کچھ نہیں ہوتا، حفیظؔ کا انفرادی رنگ کیا تھا، کیا خوبی تھی ان کی غزل میں کہ ان کے ہم عصر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
’’اچّھے اشعار سب حفیظؔ کے کھاتے میں چلے جاتے ہیں۔‘‘
لفظ ’’مکمّل‘‘ کا استعمال بہت احتیاط کا متقاضی ہے لیکن حفیظؔ کے معاملے میں اسے برتا جا سکتا ہے۔ وہ ایک مکمل شاعر، مکمل تاریخ گو اور مکمل محقّق تھے۔
اس عصرِ ناپرساں اور عہدِ فراموشاں میں اردو ادب کے قاری کے ذہن سے اگر حفیظ محو ہوتا جا رہا ہے تو یہ کوئی تعجب خیز امر نہیں۔ حفیظ کا مختصر تعارف اور کلامِ حفیظ کا انتخاب، حفیظ کو یاد کرنے اور انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کی ایک چھوٹی سی خواہش ہے۔