شہنشاہ حسین ارم لکھنوی نے اردو شاعری میں اپنے خوب صورت اشعار کی بدولت بڑا نام پایا، لیکن آج اس روایتی غزل گو شاعر کا تذکرہ بہت کم ہوتا ہے۔ نئی نسل شاید ہی ان کے نام سے واقف ہو۔ لیکن ایک دور تھا جب وہ کراچی شہر کے مشاعروں میں شریک ہوتے اور اپنے کلام پر خوب داد پاتے تھے۔
ارم لکھنوی نے 1910ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے والد ریلوے میں ملازم تھے اور تقسیم کے بعد ان کا گھرانہ ہجرت کرکے کراچی پہنچ گیا۔ یہاں ارم لکھنوی نے ریڈیو پاکستان کے کراچی سینٹر میں اصلاحِ تلفظ کی ذمہ داری سنبھالی۔ اردو غزل کے اس روایتی شاعر نے 5 فروری 1967ء کو وفات پائی اور شہر کے لیاقت آباد قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔
اس تعارف کے بعد ہم آغا ناصر جیسے نام ور براڈ کاسٹر اور مصنّف کی خاکوں پر مبنی کتاب ”گم شدہ لوگ” سے ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ اس زمانے میں ادیب و شاعر اور ماہرِ نشریات ذوالفقار علی بخاری المعروف زیڈ اے بخاری ریڈیو کے کرتا دھرتا تھے۔ آغا ناصر لکھتے ہیں کہ ذوالفقار بخاری جن لوگوں کو عزیز رکھتے تھے ان میں سے اگر کسی کے ساتھ ناراض ہوتے تو اپنی خفگی کے اظہار کے لیے ان سے بول چال بند کر دیتے۔ اسی تناظر میں، جب بزرگ شاعر ارمؔ لکھنوی اور بخاری صاحب میں بول چال بند تھی، تو کراچی کے ایک مشاعرے میں جس کی صدارت بخاری صاحب کر رہے تھے، ارمؔ لکھنوی بھی بطور شاعر مدعو تھے۔
اپنی باری آنے پر جب انہوں نے غزل سنائی تو ساری محفل داد و تحسین کے شور سے گونج اٹھی، مگر بخاری صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے، خشمگیں نگاہوں اور تنی ہوئی بھنوؤں کے ساتھ ساری غزل سماعت کی۔ غزل کے اختتام پر ارم ؔصاحب نے بخاری صاحب کو مخاطب کر کے کہا، حضور! ایک شعر صرف آپ کی خدمت میں عرض ہے، اور پھر بڑی رقت کے ساتھ درج ذیل شعر پڑھا:
؎ یوں وہ گزرے نظر چرائے ہوئے
ہم لیے رہ گئے سلام اپنا
بخاری صاحب شعر سن کر پھڑک اٹھے اور جذباتی انداز میں اپنی نشست سے اٹھ کر ارمؔ لکھنوی کو گلے لگا لیا۔