تازہ ترین

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

بدنام اگر ہوں‌ گے تو کیا نام نہ ہو گا(شاعری)

اردو شاعری میں جرات کا نام معاملہ بندی اور حسن و جذبات کے اظہار کے لیے رکیک اور‌ پست خیالات باندھنے کے حوالے سے مشہور ہے۔

ادبی تذکرو‌ں میں ہے کہ جرات‌ محبوب کے ساتھ معاملہ بندی کے مضامین تک محدود رہے اور اشعار میں اس حوالے سے گرواٹ اور پستی نظر آتی ہے، کہتے ہیں‌ کہ وہ جوانی میں نابینا ہوگئے تھے، لیکن بعض نے اسے غلط بتایا ہے۔

جرات کا انتقال 1809 میں ہوا۔ یحٰیی امان ان کا اصل نام تھا جو شیخ قلندر بخش جرات مشہور ہوئے۔ اس زمانے کی غزل روایتی موضوعات میں سمٹی ہوئی تھی جس پر وارداتِ قلبی، عشقیہ اور داخلی جذبات کا رنگ غالب تھا۔ اسی طرح اس دور کی شاعری میں اردو زبان کے بہت سے ایسے الفاظ پڑھنے کو ملتے ہیں جو اب متروک ہیں۔ اس غزل میں‌ بھی آپ کو ایسے الفاظ ملیں گے۔ جرات کی یہ غزل پڑھیے۔

‌غزل
بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیں
جی لگا ہے پہ ابھی ہاتھ لگا سکتے نہیں

دور سے دیکھ وہ لب کاٹتے ہیں اپنے ہونٹھ
ہے ابھی پاس ادب ہونٹھ ہلا سکتے نہیں

قاعدے کیا ہمیں معلوم نہیں الفت کے
بے کم و کاست مگر ان کو پڑھا سکتے نہیں

کیا غضب ہے کہ وہی بولے تو بولے از خود
ہم انہیں کیوں کہ بلاویں کہ بلا سکتے نہیں

گرچہ ہم خانہ ہیں جرأتؔ، پَہ ہمارے ایسے
بخت سوئے کہ کہیں ساتھ سلا سکتے نہیں

Comments

- Advertisement -