اشتہار

ناشاد و ناکارہ پھرنے والے مجازؔ کا تذکرہ!

اشتہار

حیرت انگیز

بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں مجاز اردو شاعری کے افق پر طلوع ہوئے اور نوجوانوں میں ان کا کلام بہت مقبول ہوا۔ اسرار الحق مجاز کی شاعری میں‌ رومان کی ترنگ، کیف و مستی، درد و الم، اور انقلاب کی دھمک سبھی کچھ ملتا ہے۔ مجاز تھے تو معمولی شکل و صورت کے لیکن ان کی شخصیت بڑی دل نواز تھی اور بالخصوص لڑکیاں‌ ان کی دیوانی تھیں۔

اردو زبان کے اس مشہور شاعر نے جہاں‌ زندگی کی رعنائیوں‌ کو اپنے کلام میں‌ سمیٹ کر داد وصول کی، وہیں اس رندِ بلا خیر کا جنون اور رومان اس سے “آوارہ” اور “رات اور ریل” جیسی نظمیں لکھواتا رہا۔ مجاز کو ان کی نظموں‌ کے طفیل بے پناہ شہرت ملی۔

اردو کا یہ ممتاز شاعر 19 اکتوبر 1911ء میں قصبہ رودولی، ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوا تھا۔ ان کا اصل نام اسرارُالحق اور مجازؔ تخلص تھا۔ تعلیم کے لیے لکھنؤ آئے اور یہاں سے ہائی اسکول پاس کیا۔ اسی شہر سے محبّت نے انھیں مجاز لکھنوی مشہور کردیا۔ 1935ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا اور دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ہونے والے میگزین ’’آواز‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ کچھ وقت بمبئی انفارمیشن میں بھی کام کیا اور پھر لکھنؤ آکر ’نیا ادب‘ اور ’پرچم‘ کے مدیر ہوگئے۔ اس کے بعد دہلی میں ہارڈنگ لائبریری سے منسلک ہوئے۔

- Advertisement -

مجازؔ انجمنِ ترقی پسند مصنّفین کے رکن تھے۔ انھوں نے 3 دسمبر 1955ء کو لکھنؤ میں ایک مشاعرہ پڑھا تھا اور دو دن بعد ان کے پرستاروں ان کے انتقال کی خبر ملی۔ مجاز نے 5 دسمبر 1955ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لیا تھا۔

ان کی مشہور زمانہ نظم ’’آوارہ‘‘ کے دو بند پیشِ خدمت ہیں۔

شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
میرے سینے پہ مگر رکھی ہوئی شمشیر سی
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

یہ وہ نظم تھی جس نے ہندوستان بھر میں‌ نوجوانوں کو ان کا پرستار بنا دیا۔کالج کے لڑکے اور لڑکیاں‌ مجاز کو گنگناتے۔ ان کی نظمیں یاد کر کے ایک دوسرے کو سناتے۔ مجاز چین سے جی نہ سکے۔ شراب نوشی کی بری عادت کا شکار ہوگئے اور یہی ان کی موت کا سبب بنی۔

نام ور نقّاد اور شاعر آل احمد سرور نے ان کے بارے میں‌ ایک جگہ لکھا، اپنے ہم عصروں میں جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم لوگوں کے حصّے میں آئی ہے۔ مجازؔ نے کبھی کوئی ڈولی نہیں بنائی، شہرت کے لیے اس نے کوئی جال نہیں بچھایا، ہم عصروں میں سے ہر ایک سے اسی سطح پر ملتا رہا۔ اس کے دوستوں میں ہر مسلک اور مشرب کے آدمی تھے۔

نشے کے عالم کی بات دوسری ہے۔ اس عالم میں اکثر لوگ ناقابلِ برداشت ہوجاتے ہیں۔ آخر میں مجازؔ کی بھی یہی کیفیت ہو گئی تھی، مگر نشے میں ایک دفعہ جو کچھ اس نے کیا میں بھول نہیں سکتا۔

ہوا یوں کہ ڈاکٹر علیم، احتشام اور میں ایک اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے پٹنے گئے، مجازؔ بھی ساتھ تھے۔ ایک ڈبّے میں صرف تین برتھ خالی تھیں۔ مجازؔ کو دوسرے ڈبّے میں جانا پڑا۔ جلد ہی لوٹ آئے، میں نے پوچھا، کیا ہوا، کہنے لگے، وہاں ایک سردار جی کرپان لیے میرے منتظر تھے۔ چناں چہ میں نے شان دار پسپائی ہی میں نجات سمجھی، فرش پر بستر بچھا کر لیٹ گئے۔

پٹنے پہنچے تو سب ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرائے گئے، ایک کمرے میں، مَیں اور احتشام تھے۔ برابر کے کمرے میں پنڈت کیفیؔ تھے۔ اس کے بعد کے کمرے میں مجازؔ اور جذبیؔ تھے۔

رات کو سب سونے لیٹے ہی تھے کہ پنڈت جی کے کمرے سے شور اٹھا ’’ارے دوڑیو، بچائیو۔ یہ مار ڈالتا ہے۔‘‘ ہم لوگ گھبرا کر دوڑے تو دیکھا کہ مجازؔ نشے میں پنڈت جی کے پیر زور زور سے داب رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ بزرگ ہیں۔ آپ کی خدمت میں سعادت ہے۔

پنڈت جی چیخ رہے تھے کہ ہائے میں مرا، بڑی مشکل سے مجازؔ کو علاحدہ کیا۔ صبح ہوئی تو اب مجازؔ پنڈت جی کے سامنے نہیں آتے۔ آخر پنڈت جی نے گلے سے لگایا اور کہا کہ ’’مجازؔ تم سے اردو شاعری کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ تمہارے خلوص سے میں بڑا متاثر ہوا مگر خلوص میں تم نے میرا کام ہی تمام کر دیا ہوتا۔ بھائی اپنے آپ کو سنبھالو۔ تمہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘ ہم سب آبدیدہ ہوگئے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں