پیر, مئی 12, 2025
اشتہار

مجید امجد: فکر خود سوز سے لتھڑے ہوئے اوراق کا مالک

اشتہار

حیرت انگیز

مجید امجد کا شمار اردو نظم کے جدید اور اہم شعرا میں ہوتا ہے۔ 11 مئی 1974ء کو مجید امجد انتقال کرگئے تھے۔ آج اس شاعر کی برسی ہے۔

مجید امجد 29 جون 1914ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد صحافت کے شعبہ میں قدم رکھا۔ 1935ء میں رسالہ ’’عروج‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور کافی عرصہ اس سے منسلک رہے۔ مجید امجد کی ازدواجی زندگی خوش گوار نہ تھی۔ ان کی بیوی الگ رہنے لگیں۔ بڑی تنگ دستی سے گزر اوقات ہوتی تھی اور معاش نے مجید امجد کو نڈھال کر رکھا تھا۔ بعد میں سرکاری ملازمت مل گئی اور 1949ء میں محکمۂ خوارک سے جڑ گئے۔ 1972ء میں ساہیوال کے اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔

مجید امجد کو شعر و سخن سے فطری لگاؤ تھا۔ غزل کی نسبت نظم سے زیادہ شغف تھا۔ مجید امجد کی شاعری میں موضوعات کا بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔ اردو کے اس اہم نظم گو شاعر نے جدید لہجہ و آہنگ میں شاعری کی اور ہم عصروں میں ممتاز ہوئے لیکن ان کی زندگی میں شہرت اور مقبولیت کا سلسلہ یوں نہ تھا جیسے بعد از مرگ ان کے حصّے میں آیا۔

مجید امجد کے بقول ’’ماضی کی راکھ سے میں نے جن بجھتی چنگاریوں کو چنا ہے ان کے ہاتھوں پر ان شب و روز کے نقش قدم ہیں جو اس کائنات اور اس کے حسنِ پراسرار کے دھیان میں کٹ گئے ہیں۔ میری داستانِ عجز یہی نظمیں ہیں۔ فکر خود سوز سے لتھڑے ہوئے یہی چند اوراق ہیں۔ سب سے بڑھ کر خلش اس بات کی ہے کہ یہ بیان نامکمل، یہ اظہار ناتمام جس کی بنیاد محض تسکینِ ذوق تھی، فن کی ان بلندیوں کو نہ پہنچ سکا جو میرا مقصودِ نظر تھیں۔‘‘

مظفر علی سید نے مجید امجد کے بارے میں کہا تھا کہ’’ بلاشبہ مجید امجد کا کلام ہمارے دور کی ایک اہم تہذیبی قوت ہے۔‘‘

اس شاعر کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں شبِ رفتہ، شبِ رفتہ کے بعد، چراغِ طاقِ جہاں، طاقِ ابد اور مرے خدا مرے دل کے نام سرِفہرست ہیں۔ ان کی نظموں کے عنوانات ان کے تخیل کی دین اور نظمیں حالات و واقعات کے ساتھ سماج کے مختلف پہلوؤں پر ان کی نظر اور شعری گرفت کی عمدہ مثال ہیں۔

مجید امجد کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں