پیر, مئی 12, 2025
اشتہار

میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں!

اشتہار

حیرت انگیز

مجید لاہوری کے مزاحیہ اشعار محض سخن برائے گفتن نہیں بلکہ ہنسی ہنسی میں وہ زخم کریدنے، سماجی ناہمواریوں اور معاشرتی مسائل پر نشتر برسانے کا فن جانتے تھے۔ ان کے چند منتخب اشعار جو آج کے جدید معاشرے کی بھی عکاسی کرتے ہیں‌ ملاحظہ ہوں۔

میدانِ سیاست سے زورِ خطابت تک دھوکے اور فریب سے خود کو مسیحا بتانے والوں‌ کے پیچھے چلنے والے عوام سے وہ ایسے مخاطب ہوتے ہیں۔

اے قوم بنا دے تُو مجھ کو بھی ذرا لیڈر
کیا اور کروں آخر جب کام نہیں ملتا
گدھوں پہ لاد کے ہم بوجھ ذمے داری کا
یہ کہہ رہے ہیں کوئی آدمی نہیں ملتا

حضرتِ انسان کی کم عقلی، کج فہمی کا عالم یہ ہے کہ اس نے دنیا میں‌ اپنے ہی جیسے انسانوں‌ کو گویا پالن ہار اور ان داتا بنا رکھا ہے۔ مجید لاہوری کا یہ شعر دیکھیے۔

فرعون و ہامان و قارون سارے
سبھی مفلسوں کے بنائے ہوئے ہیں

وہ ہمارے جمہوری نظام اور سیاسی ابتری پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

بناتے تھے مجھے کب لوگ ممبر
میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں

اور یہ دو شعر کیسے نمکین ہیں جس میں‌ اردو زبان کی بے وقعتی پر انھوں‌ نے اہلِ علم کو خبردار کیا ہے اور اردو بولنے والوں‌ کو گویا جگانے کی کوشش کی ہے۔

کھا کے امریکا کا گھی پھر نوجواں ہو جائے گا
مولوی گل شیر، بھولو پہلواں ہو جائے گا
غیر ٹھکرائیں گے،اپنے بھی نہیں اپنائیں گے
اے مرے دل تو بھی کیا اردو زباں ہو جائے گا

اس شعر میں‌ مجید لاہوری نے سیاسی نظام پر ظریفانہ چوٹ کی ہے

ہم نے بی اے کیا، کلرک ہوئے
جو مڈل پاس تھے، وزیر ہوئے

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں