بدھ, جنوری 8, 2025
اشتہار

دردؔ: وہ شاعر جسے میر تقی میرؔ نے ریختہ کا "زور آور” کہا!

اشتہار

حیرت انگیز

مرزا غالب نے میر تقی میرؔ کو استاد شاعر تسلیم کیا تھا اور میرؔ نے اپنے ہم عصر خواجہ میر دردؔ کو ریختہ کا "زور آور” شاعر کہا تھا۔ یہ تذکرہ خواجہ میر دردؔ کا ہے جن کا کلام عشقِ حقیقی میں ڈوبا ہوا ہے، لیکن عشقِ حقیقی کے ساتھ دردؔ وارداتِ قلبی کے شاعر بھی تھے۔ دردؔ ہندوستانی موسیقی کا بھی علم رکھتے تھے۔

مرزا لطف علی صاحب کی "گلشنِ سخن” میں‌ لکھا ہے کہ دردؔ کا کلام سراپا درد و اثر ہے۔ میر حسن نے انھیں آسمانِ سخن کا خورشید قرار دیا اور عبد السلام ندوی نے کہا کہ خواجہ میر دردؔ نے اس زبان کو سب سے پہلے صوفیانہ خیالات سے آشنا کیا۔

دردؔ ایک صاحب اسلوب شاعر تھے جن کی شاعری بنیادی طور پر عشقیہ شاعری ہے۔ ان کا عشق مجازی بھی ہے، حقیقی بھی۔ خواجہ میر درد کی شاعری میں بے ثباتی و بے اعتباری، بقا اور فنا، مکان و لا مکاں، توکل اور فقر کے مضامین بکثرت ملتے ہیں۔

- Advertisement -

حضرت خواجہ میر درد کے اجداد بخارا کے باشندے تھے۔ سلسلۂ نسب والد کی طرف سے حضرت خواجہ بہاء الدّین نقش بندی سے جا ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے حضرت عبدالقادر جیلانی سے۔ والد کا نام خواجہ ناصر تھا۔ جو فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ عندلیبؔ تخلص کرتے تھے۔ میر دردؔ ۱۱۱۹ء میں پیدا ہوئے۔ تصوف اور شاعری ورثے میں پائی۔ اوائل عمر سے ہی ان کا رجحان شاعری اور مذہب کی طرف تھا۔ بچپن سے تصنیف و تالیف کا شوق تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں رسالہ احکام الصلوٰۃ لکھا۔ اس دور میں کم عمری میں شادی کرنے کا رواج تھا۔ والد نے ان کی شادی کر دی۔ درد ۱۷۸۵ء میں آج ہی کے روز مالکِ حقیقی سے جا ملے۔

میر دردؔ کی شاعری تصوف اور تغزل کے رنگ سے منوّر ہے۔ زبان بڑی تیکھی اور رواں دواں تھی۔ ان کے کلام میں آورد نام کو نہ تھا۔ بس آمد ہی آمد تھی۔ اس حوالے سے دردؔ لکھتے ہیں: ’’فقیر کے اشعار باوجود رتبۂ شاعری کی روایت کے، پیشۂ شاعری اور اندیشۂ ظاہری کے نتائج نہیں۔ بندے نے کبھی شعر بدون آمد کے آورد سے موزوں نہیں کیا اور بتکلف کبھی سحر شعرو سخن میں مستغرق نہیں ہوا۔ کبھی کسی کی فرمائش اور آزمائش سے متأثر ہو کر شعر نہیں کہے ‘‘

دردؔ کی غزلیں متصوفانہ خیالات، معاملہ بندی، نزاکت، حسن خیال، شوخی اور لطافت سے معمور ہیں۔ وہ بڑی نغمگی سے بھر پور مترنم بحروں کا انتخاب کرتے تھے۔ وہ روزمرہ کی زبان بڑی بے تکلفی اور خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

شمس العلماء مولوی سید امداد امام اثر ؔ لکھتے ہیں: ’’خواجہ میر دردؔ کی غزل سرائی نہایت اعلیٰ درجے کی ہے۔ سوز و گداز میں ان کے جواب میں میر تھا یا آپ اپنا جواب تھے۔ واردات قلبی کے مضامین ایسے باندھتے تھے کہ سودا ان تک نہ پہونچتے تھے۔ ہر چند خواجہ کا دیوان مختصر ہے۔ مگر قریب قریب انتخاب کا حکم رکھتا ہے‘‘

خواجہ میر دردؔ کی کتابیں یادگارِ زمانہ ہیں جن میں رسالۂ اسرار الصلوٰۃ، رسالۂ واردات، علم الکتاب، رسالۂ اربعہ، نالۂ درد، آہِ سرد، دردِ نہاں، اور فارسی اور دیوانِ اردو شامل ہیں۔

دردؔ موسیقی کے ماہر تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں بھی موسیقیت ہے۔ وہ تبھی شعر کہتے تھے جب آمد ہو۔ اسی لیے ان کا دیوان بہت مختصر ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں