اردو کے نام وَر شاعر نشور واحدی کا اصل نام حفیظ الرّحمٰن تھا وہ غزل کے منفرد شاعر اور اپنے دل کش ترنم کی وجہ سے مشاعروں میں مقبول تھے۔ نشور واحدی کے شعری مجموعوں کے علاوہ ان کی تین نثری کتب بھی شایع ہوئیں۔
نشور واحدی نے 1912ء میں ایک علمی ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ اُن کے والد بھی شاعر تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے درس و تدریس کو وسیلہ کسبِ معاش بنایا۔ یونانی طب کے ساتھ ہومیو پیتھی بھی جانتے تھے۔
ان کے زمانے میں علامہ اقبال کی شاعری کا بہت چرچا تھا۔ وہ بھی اقبال سے بے حد متاثر تھے۔ بعد میں انھوں نے غزل گوئی میں کمال حاصل کیا اور مشاعروں میں خوب داد سمیٹی۔ وہ اپنی غزل گوئی کے سبب ہم عصر شعرا میں ممتاز ہوئے۔
ان کے مجموعہ ہائے کلام "آتش و نم” ،”فروغِ جام” ، "سوادِ منزل” ، "گل افشانئ گفتار” میں غزلیں اور نظمیں شامل ہیں، لیکن ایک زمانے میں انھوں نے اقبال کے رنگ میں نظمیں بھی خوب کہیں۔ "صہبائے ہند” میں ان کی یہ نظمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ بعد میں انھوں نے خود کو نیم رومانوی اور حقیقت پسند شاعر کے طور پر پیش کیا ہے۔ نشور واحدی کا ترنم بھی مشہور تھا اور اسی وجہ سے مشاعروں میں انھیں خوب سنا جاتا تھا۔
4 جنوری 1983ء کو اردو کے اس ممتاز شاعر نے کان پور میں وفات پائی۔
نشور واحدی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
نئی دنیا مجسم دل کشی معلوم ہوتی ہے
مگر اس حسن میں دل کی کمی معلوم ہوتی ہے
مری راتوں کی خنکی ہے ترے گیسوئے پُر خم میں
یہ بڑھتی چھاؤں بھی کتنی گھنی معلوم ہوتی ہے
یہ دل کی تشنگی ہے یا نظر کی پیاس ہے ساقی
ہر اک بوتل جو خالی ہے بھری معلوم ہوتی ہے
دمِ آخر مداوائے دلِ بیمار کیا معنٰی
مجھے چھوڑو کہ مجھ کو نیند سی معلوم ہوتی ہے
دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے
چلے آؤ جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے
جدھر دیکھا نشورؔ اک عالم دیگر نظر آیا
مصیبت میں یہ دنیا اجنبی معلوم ہوتی ہے