ن۔م۔ راشد دنیائے ادب کا ایک معتبر نام ہے جنھوں نے اردو نظم کو نئی ترنگ، آہنگ دیا اور شاعری کی اس صنف میں نئے اور منفرد موضوعات کو اس خوبی سے سمیٹا کہ ان کا اسلوب اور انداز ان کی پہچان بن گیا۔ آج اردو کے اس ممتاز شاعر کا یومِ وفات ہے۔ وہ لندن میں 9 اکتوبر 1975 کو انتقال کرگئے تھے۔
ان کا اصل نام نذر محمد راشد تھا۔ یکم اگست 1910 کو اکال گڑھ، ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا سلسلہ شروع ہوا تو خود کو ن۔ م راشد کے نام سے متعارف کروایا۔ نظم گوئی اس شاعر کا وہ حوالہ ہے جس نے اس صنف کو عہد آفریں تبدیلیوں سے ہم کنار کیا اور روایت سے ہٹ کر ہیئت و اسلوب میں وہ تجربات کیے جس نے نظم کو نئی ترنگ اور آہنگ دیا۔
ن۔ م راشد کا پہلا مجموعہ ’’ماورا‘‘ 1941 میں شایع ہوا جس نے روایت کی پابند اور مخصوص موضوعات تک محدود نظم گوئی کا سانچہ ہی بدل دیا۔ انھوں نے آزاد نظم کا تجربہ کیا اور اسے مقبول بنایا۔
ن۔ م راشد نے عالمی ادب سے متاثر ہو کر نظم کو اس کے روایتی سانچے سے باہر نکالا اور جدید اسلوب کو اپنایا جس پر شدید تنقید بھی ہوئی، لیکن انھوں نے پروا نہ کی اور اسی اسلوب اور نظم میں جدت نے بہت جلد دیگر شعرا کو بھی اپنی طرف متوجہ کرلیا۔
اردو شاعری کو راشد نے جہاں نئے ڈھب سے آشنا کیا، وہیں نظم گوئی میں ان کے تجربات نے امکانات کا در بھی کھولا جس کا بعد میں آنے والے شعرا نے بھی تعاقب کیا اور اس صنف کو تازہ خیالات اور نادر موضوعات سے مالا مال کیا۔
ن۔ م راشد مختلف ممالک میں قیام پزیر رہے اور ان کی زندگی کے آخری ایّام لندن میں گزرے۔ ن۔ م راشد نے غزلیں بھی کہیں، لیکن ان کی وجہِ شہرت ان کی نظمیں ہیں۔
اس شاعر کی ایک مشہور نظم "زندگی سے ڈرتے ہو” باذوق قارئین کی نذر ہے
زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
زندگی سے ڈرتے ہو؟
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں
آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے
”ان کہی” سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
پہلے بھی تو گزرے ہیں
دورِ نارسائی کے ”بے ریا” خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو ہیچ آرزو مندی
یہ شبِ زباں بندی، ہے رہِ خداوندی
تم مگر یہ کیا جانو
لب اگر نہیں ہلتے ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں
روشنی سے ڈرتے ہو
شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر خاک ہو گیا آخر
اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے
آدمی چھلک اٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو
ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں!
تم ابھی سے ڈرتے ہو