بدھ, اپریل 16, 2025
اشتہار

قتیل شفائی کا وہ جملہ جس نے سیدہ اختر حیدر آبادی کو ناراض کر دیا

اشتہار

حیرت انگیز

اردو ادب میں قتیل شفائی بطور شاعر اپنی غزل گوئی کے ساتھ فلمی گیتوں‌ کے لیے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے جنھیں پاکستان میں سرکاری سطح پر اور متعدد ادبی تنظیموں نے بھی اعزازات سے نوازا۔ قتیل شفائی کی غزلیں مشہور گلوکاروں نے گائیں اور ان کے فلمی گیت بھی بہت مقبول ہوئے۔ انھیں پاکستان ہی نہیں بھارت اور دیگر ممالک میں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا جہاں شرکا فرمائش کرکے قتیل شفائی سے ان کی مشہور غزلیں سنا کرتے تھے۔

قتیل شفائی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے اور ان کی آپ بیتی میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں‌ جو ان کے فن و شخصیت کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ پیشِ نظر پارے قتیل شفائی کی آپ بیتی ‘گھنگرو ٹوٹ گئے’ سے لیے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

مدراس کے مشاعرے میں جب میں اپنا کلام سن چکا تو دیکھا کہ لمبی لمبی داڑھیوں والے دو آدمی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ سے ایک گزارش ہے۔ میں نے کہا فرمائیے۔ کہنے لگے کہ مشاعرے کے دوسرے دور میں آپ اپنی غزل ’’الفت کی نئی منزل کو چلا ‘‘سنائیں۔

میں نے ہزار سمجھایا کہ وہ فلم کی غزل ہے اور آپ مجھ سے یہ سن کر بہت بے مزہ ہوں گے۔ مگر وہ نہ مانے اور کہنے لگے کہ ہمیں یہ غزل آپ کی زبان سے سننے کی بڑی تمنا ہے۔ چنانچہ خاص طور پر اس غزل کے لئے اناؤنسمنٹ ہوئی اور اس کی فرمائش کی گئی۔ میں نے تحت اللفظ یہ غزل پڑھی۔ اور اس پر مجھے جو داد ملی وہ ناقابل فراموش ہے۔ مجھ سے اس کا ایک ایک مصرح چار چار بار پڑھایا گیا اور پتا چلا کہ یہی وہ غزل تھی جس کی وجہ سے مجھے وہاں بلایا گیا تھا۔

وہیں سے ہم احمد آباد گئے جہاں پرانے مسلمان بادشاہوں کے آثار دیکھے اور پتھر کی جالیوں کا کام دیکھا جن کا جواب نہیں تھا۔ ایک مسجد میں بھی پتھر کی جالیاں دیکھیں۔ اس کے ایک مینار کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر اسے اوپر سے دھکا دیا جائے تو ہلتا ہے۔ اس لئے اس کو مینارِ لرزاں بھی کہتے تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ مینار سنگِ لرزاں سے بنا ہوا ہے۔

ہمارے ساتھ مشہور خاتون سیدہ اختر حیدر آبادی تھیں جو خاکسار تحریک میں بھی کام کر چکی تھیں۔ انہیں خطیبۂ ہند بھی کہا جاتا تھا۔ وہ بہت موٹی تھیں۔ وہ کچھ انجمنوں کی عہدیدار تھیں اور مشاعروں اور دوسری تقاریب میں ہر جگہ آگے آگے رہتی تھیں۔ جب ہم مینار کے اوپر چڑھے تو یہ ذرا سا ہلتا ہوا نظر آیا۔ سیدہ اختر سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔ وہ بنگلور کی رہنے والی تھیں اور مشاعرہ کرنا چاہتی تھیں۔ ان کے ساتھ میرے بہت تعلقات بن گئے تھے لیکن بعض اوقات ایک جملہ تعلقات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔

جب ہم مینارِ لرزاں سے نیچے اترے تو کہنے لگیں کہ دیکھا میں نے کہا تھا کہ یہ مینار ہلتا ہے۔ میں نے کہا بیگم اختر یہ مینار ہمارے ہلانے سے تو نہیں ہلا البتہ آپ کے اوپر جانے سے ہلا ہے۔ وہ یہ جملہ سننے کے بعد بالکل خاموش ہو گئیں اور اس کے بعد جتنا عرصہ ہم ایک ساتھ رہے۔ انہوں نے بول چال بند رکھی اور بنگلور کا پروگرام بھی گول کر دیا۔

دراصل سیدہ اختر حیدر آبادی بہت موٹی تھیں اور خواہ مخواہ جی چاہتا تھا کہ ان سے کوئی شرارت کی جائے۔ اس وقت ہمارے ساتھ پاکستان سے سحاب قزلباش بھی تھیں۔ سیدہ اختر کے بال اتنے لمبے تھے کہ بلا مبالغہ ٹخنوں تک پہنچتے تھے اور کنگھی کر کے انہیں کھلا چھوڑتی تھیں۔ موٹی تو سحاب قزلباش بھی تھیں مگر یہ اچھی شکل و صورت والی تھیں۔ یہ کہنے لگیں کہ مجھے نظر آتا ہے کہ اختر کے بال مصنوعی ہیں۔ ہم نے کہا کہ نہیں مصنوعی بال اتنے زیادہ سنبھالے ہی نہیں جا سکتے۔ کہنے لگیں نہیں کسی طرح ان کے بال ٹیسٹ کر کے مجھے بتاؤ۔ جوانی کا زمانہ تھا اور شرارتیں کرنے کے دن تھے۔ جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو وہ میرے ساتھ بیٹھی تھیں۔ میں نے عمداً یہ کیا کہ ان کے بیٹھتے ہوئے بال ذرا ادھر رکھ کے گاڑی کا دروازہ بند کر دیا۔ بال اٹک گئے اور جب میں نے سیٹ بدلوانے کے لئے انہیں اٹھنے کو کہا تو چونکہ بال اٹکے ہوئے تھے اس لئے ان کی ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ بال کھینچنے سے انہیں تکلیف ہوئی۔ انہیں پتا نہیں تھا کہ میں نے یہ عمداً کیا ہے۔ لیکن سحاب قزلباش کے لئے تصدیق ہو گئی اور اب یہ محترمہ چین سے بیٹھیں۔ اگر انہیں پتا چل جاتا تو یقیناً اس روز ناراضی ہو جاتی۔ میں نے زندگی میں اتنے لمبے بال کسی کے نہیں دیکھے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں