ہفتہ, جولائی 27, 2024
اشتہار

یومِ وفات: تذکرہ خواہ مخواہ کا….

اشتہار

حیرت انگیز

اردو شاعری میں طنز و مزاح کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے خواہ مخواہ حیدر آبادی اُن بزلہ سنج شعرا میں شامل ہوئے جنھیں لوگوں نے سندِ قبولیت بخشی اور ان کی سخن طرازیوں پر خوب داد و تحسین سے نوازا۔ آج اس مزاح گو شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔

نثر یا نظم میں‌ طنز و مزاح کسی بھی معاشرے کے افراد میں جہاں برداشت، تحمل اور بردباری پیدا کرتا ہے، وہیں‌ ان کو زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کے آزار سے دور اور پھیکے پن سے نکل کر لمحۂ موجود کو خوش گوار بنانے پر آمادہ کرتا ہے۔ اگر یہ کوشش کوئی شاعر کرے اور اس میں‌ کام یاب ہوجائے تو وہ مقبول بھی ہوجاتا ہے۔ غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی ایسے ہی شاعر تھے جن کا انتقال 2 مئی 2017ء کو ہوا۔

ہندوستان اور بیرونِ ممالک مقیم باذوق اور شعر و ادب سے شغف رکھنے والے افراد کی اکثریت خواہ مخواہ حیدرآبادی کی مداح ہے اور دکنی بولی میں ان کے کلام سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کو بالخصوص مشاعروں‌ میں‌ بڑے شوق اور توجہ سے سنا جاتا تھا۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کے اوراقِ‌ زیست کو الٹتے ہوئے طنز و مزاح‌ سے متعلق ڈاکٹر وزیر آغا کی یہ رائے بھی پڑھیے: ’’مزاح نگار اپنی نگاہِ دوربین سے زندگی کی ان ناہمواریوں اور مضحک کیفیتوں کو دیکھ لیتا ہے جو ایک عام انسان کی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہیں۔ دوسرے ان ناہمواریوں کی طرف مزاح نگار کے ردعمل میں کوئی استہزائی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ ان سے محظوظ ہوتا اور اس ماحول کو پسند بھی کرتا ہے جس نے ان ناہمواریوں کو جنم دیا ہے۔ چنانچہ ان ناہمواریوں کی طرف اس کا زاویۂ نگاہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ مزاح نگار اپنے ’’تجربے‘‘ کے اظہار میں فن کارانہ انداز اختیار کرتا ہے اور اسے سپاٹ طریق سے پیش نہیں کرتا۔‘‘ خواہ مخواہ حیدرآبادی نے بھی زندگی اور مسائل کو فن کارانہ طریقے سے اپنے کلام میں‌ پیش کیا اور اسے ہر طرح‌ کے ابتذال اور سطحی پن سے بھی دور رکھا۔

- Advertisement -

خواہ مخواہ حیدرآبادی 1928ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ وہ نوجوانی میں‌ مشاعرے پڑھنے لگے تھے اور دکن میں‌ اپنی اردو اور دکنی زبان میں‌ مزاحیہ شاعری کے باعث لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ انہیں مزاحیہ مشاعروں میں خاص طور پر مدعو کیا جاتا تھا بلکہ وہ ہندوستان کے مزاحیہ مشاعروں کا جزوِ لازم تھے۔ خواہ مخواہ ان شعرا میں سے تھے جن کا دکنی زبان مں کلام زباں زدِ عام ہوا۔ ’’نئیں بولے تو سنتے نئیں‘‘ اس شاعر کا وہ کلام ہے جسے ہندوستان اور بیرونِ ملک منعقدہ مشاعروں‌ میں ہمیشہ فرمائش کرکے سنا جاتا تھا۔

ان کا اصل نام غوث محی الدّین احمد تھا۔ ابتدائی تعلیم حیدرآباد دکن میں پائی اور اردو میڈیم میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ غوث خواہ مخواہ کو بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں منعقدہ مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا اور وہاں تارکینِ وطن کی بڑی تعداد انھیں بڑے شوق سے سنتی تھی۔ ان میں‌ پاک و ہند کے لوگوں کے ساتھ بنگلہ دیشی اور دیگر ممالک کے اردو سمجھنے والے افراد شامل ہیں۔ فالج کے حملے کے بعد اپنی مزاحیہ شاعری سے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دینے والے خواہ مخواہ حیدرآبادی چلنے پھرنے معذور اور بولنے سے قاصر تھے۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کی تصانیف میں ’’حرفِ مکرر‘‘، ’’بفرضِ محال‘‘اور ’’کاغذ کے تیشے‘‘ شامل ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں