غزل
دماغ پھیر رہا ہے یہ تاج تیرا بھی
بگاڑ دے گی حکومت مزاج تیرا بھی
عروجِ بام سے اترا تو جان جائے گا
مِرا نہیں تو نہیں ہے سماج تیرا بھی
کسی کا سکّہ یہاں دیر تک نہیں چلتا
ہمیشہ رہنا نہیں ہے رواج تیرا بھی
بس ایک نام محبّت کے گوشوارے میں
بیاضِ دل میں ہوا اندراج تیرا بھی
مجھے غرور سے معزول کرنے والے سن
نہ رہنے دوں گا ترے دل پہ راج تیرا بھی
تو کیوں یہ روح کی باتیں سنائے جاتا ہے
جو مسئلہ ہے فقط احتیاج تیرا بھی
وہ خوش گمان مجھے کہہ گیا دمِ رخصت
مرض نہیں ہے بہت لاعلاج تیرا بھی
اڑایا جیسے برس کر عتاب میں مرا رنگ
ملمع ایسے ہی اترا ہے آج تیرا بھی
(پیشِ نظر کلام منڈی بہاءُ الدین سے تعلق رکھنے والے خوش فکر شاعر اکرم جاذب کا ہے، وہ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور ملک کے مختلف ادبی رسائل اور قومی سطح کے روزناموں میں ان کا کلام شایع ہوتا رہتا ہے، اکرم جاذب کے دو شعری مجموعے بھی منظرِ عام پر آچکے ہیں جنھیں قارئین سے داد اور ناقدین سے حسنِ معیار کی سند مل چکی ہے)