اسلامی دنیا میں ہی نہیں بلکہ معرکۂ حق و صداقت یعنی واقعۂ کربلا کی مثال دنیا کی تاریخ بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ واقعہ روئے زمین پر دور دور تک پھیلے ہوئے انسانوں کو حق و باطل میں تمیز کرنا سکھاتا ہے۔ کربلا میں نواسۂ رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ابتلا اور آزمائش میں صبر و استقامت اور ایثار و قربانی کی عظیم اور لازوال مثال قائم کی تھی جسے تاقیامت یاد کیا جاتا رہے گا۔
اردو ادب کی مختلف اصناف میں شعرا نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے اور خاص طور پر نظم کی صنف میں مرثیہ، نوحہ و سلام اور منقبت جیسی اصناف کربلا کے موضوع پر مشاہیر اور معروف یا غیرمعروف شعرا کی تخلیقات سے بھری ہوئی ہیں۔ اردو زبان و ادب کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مرثیہ اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ اس صنف میں شعرا نے نہ صرف حضرت امام حسین اور ان کے جاں نثار ساتھیوں کے فضائل و مناقب اور قربانیوں کا ذکر کیا ہے بلکہ مرثیہ کے اشعار سے ہمیں اس دور کی تاریخ و تہذیب، اس جنگ کے اسباب اور شہادتِ حسین کے واقعات کا علم بھی ہوتا ہے۔
اس ضمن میں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت امام حسین کی قربانی اور کربلا میں پیش آنے والے واقعات سے صرف مسلمان ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ اس واقعے نے غیر مسلم شعرا کے قلب و ذہن پر بھی گہرے اثرات چھوڑے۔ وہ اس کا دکھ، کربلا کے میدان میں رنج و الم اور نواسۂ رسول صلّی اللہ علیہ وسلم پر وہاں ٹوٹنے والی مصیبت کی شدت کو محسوس کرتے ہیں۔ مختلف ادبی تذکروں اور تحقیقی مضامین کے مطابق مرثیہ لکھنے والوں میں کئی غیرمسلم شعرا بھی شامل ہیں۔ ان میں منشی پریم چند، کالی داس گپتا رضا، سوامی پرشاد اصغر، رام راؤ سیوا، راجہ بلون سنگھ راجہ، منشی چنّو لال دلگیر، تکِّا رام، راجہ مہرا، شری مکھن داس، بالاجی تسامبا رک تارا، لال رام پرشاد وغیرہ شامل ہیں۔
یہاں ہم ایک نور احمد میرٹھی کی تحقیق و مرتب کردہ ضخیم کتاب بعنوان ’’بوستانِ عقیدت‘‘ سے کچھ غیرمسلم شعرا کا کربلا اور شہادت سے متعلق کلام نقل کررہے ہیں۔ نور احمد میرٹھی نے کتاب میں کلاسیکی دور سے دورِ جدید تک ہندو شعرا کا تذکرہ اور ان کے مراثی کو جگہ دی ہے۔
آغاز کرتے ہیں حکم تر لوک ناتھ اعظمؔ جلال آبادی کے ان اشعار سے۔
اے کربلا ہے تیری زمین رشکِ کیمیا
تانبے کو خاک سے ہم زر بنائیں گے
اعظمؔ تُو اپنے شوق کو بے فائدہ نہ جان
فردوس میں یہ شعر تیرا گھر بنائیں گے
اس کے بعد گرسرن لال ادیبؔ لکھنوی کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ وہ اپنے وقت کے قابلِ ذکر شعرا میں سے ایک تھے اور ان کی کئی کتب میں ایک حمدیہ، نعتیہ کلام اور سلام و منقبت پر مشتمل بھی ہے جو ان کی وفات کے بعد 1984ء میں شائع ہوئی۔ اس میں ایک سلام کے چند اشعار کچھ یوں ہیں:
لوحِ جہاں پہ نقش ہے عظمت حسین کی
حق کو شرف ملا ہے بدولت حسین کی
ہوئی ہے تازہ دل میں رسولِ خدا کی یاد
کہتے تھے لوگ دیکھ کے صورت حسین کی
تھا اعتقاد میرے بزرگوں کو بھی ادیبؔ
میراث میں ملی ہے محبت حسینؓ کی
بھارت کے صفِ اوّل کے معروف دانش ور، شاعر و ادیب رگھبیر سرن دواکر المعروف راہیؔ امروہوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ عقیدت رکھی اور واقعۂ کربلا سے بھی متاثر نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار ہیں:
موقوف کچھ نہیں ہے انیسؔ و دبیرؔ پر
راہیؔ بھی کہہ رہا ہے ترا مرثیہ حسین
میں حق پرست مبصر ہوں اس لیے شبیر
تمہیں ہی فاتحِ عالم قرار دیتا ہوں
کاش پھر پیغامِ حق لے کر یہاں آئیں حسین
زندگی کو اک نیا پیغام دے جائیں حسین
اس کتاب میں ایک جگہ سنت درشن جی مہاراج درشنؔ کا تذکرہ ہے جو اردو، فارسی، ہندی، پنجابی اور انگریزی زبانوں میں شاعری کرتے رہے۔ وہ دنیا بھر میں اپنے فکر انگیز خطبات و دروس کے لیے بھی دورہ کرتے رہے ہیں اور ان کے خطبات کا ترجمہ دنیا کی تقریباً چالیس زبانوں میں ہوچکا ہے۔ انہوں نے واقعہ کربلا کو مثالی قرار دیا۔ درشن جی کی نظم ’’فاتح کربلا‘‘ کے اشعار دیکھیے:
حسین درد کو، دل کو، دعا کو کہتے ہیں
حسین اصل میں دینِ خدا کو کہتے ہیں
حسین حوصلۂ انقلاب دیتا ہے
حسین شمع نہیں آفتاب دیتا ہے
حسین لشکرِ باطل کا غم نہیں کرتا
حسین عزم ہے ماتھے کو خم نہیں کرتا
حسین سلسلۂ جاوداں ہے رحمت کا
حسین نقطۂ معراج ہے رسالت کا
بروزِ حشر نشاطِ دوام بخشے گا
حسین درشنِؔ تشنہ کو جام بخشے گا
کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ اردو ادب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ وہ نہایت سادہ، آسان اور عام فہم زبان استعمال کرتے ہیں۔ ان کا یہ نعتیہ شعر بہت مشور ہے:
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
حضرت امام حسینؓ کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں:
بڑھائی دینِ محمدؐ کی آبرو تُو نے
جہاں میں ہو کے دکھایا ہے سرخرو تُو نے
زندہ اسلام کو کیا تُو نے
حق و باطل دکھا دیا تو نے
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا سکھا دیا تو نے
’’بوستانِ عقیدت‘‘ سے چند پھول اور پیش خدمت ہیں:
ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحرؔ
ہندو بھی ہوں شبیرؓ کا شیدائی بھی
(رام پرکاش ساحرؔ )
لاالٰہ کی سطوتِ شوکت کے حامل زندہ باد
قائدِ اربابِ حق جانِ قیادت زندہ باد
(رانا بھگوان داس)
کئی دوسری کتب اور ادبی مضامین میں ہندو، سکھ اور عیسائی شعراء کے واقعۂ کربلا اور حسین کے صبر و استقامت پر انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے شاعری بھی پڑھنے کو ملتی ہے جن میں ایک نام ڈاکٹر امر جیت ساگر کا ہے جن کے یہ اشعار دیکھیے:
متاعِ زیست کو اس پر نثار کرتے ہیں
نہ ہم سے پوچھیے کس غم سے پیار کرتے ہیں
رواں ہے شام و سحر چشمِ درد سے ساگر
غم ِ حسین سے ہم بھی تو پیار کرتے ہیں
معروف شاعر ہر چرن سنگھ مہر کا یہ دو اشعار ملاحظہ ہوں
حسین تُو نے راہِ حق میں جان دے دی
یہ وہ عمل ہے جو عالی وقار کرتے ہیں
کبھی نصیب ہو ہم کو بھی کربلا کی خاک
یہ وہ دعا ہے جسے بار بار کرتے ہیں