اردو شاعری کے عظیم ذخیرے میں مرثیے کو بڑی اہم اور انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ اس کا تعلق مذہب یا عقیدے سے ہے بلکہ عظمت ان واقعات کی انسانی قدروں میں ہے۔ ان واقعات کو اپنے تخلیقی عمل میں ڈھالنے میں اور اظہار کے ان طریقوں میں ہے۔ اور ان سب چیزوں نے مل کر اسے عالمی کلاسیک یا کسی ادب کی عظیم تخلیق کا درجہ دیا ہے۔
مرثیہ اردو کی واحد صنفِ سخن ہے جس نے ہیئت کا طویل سفر طے کیا ہے۔ غزل، مثنوی، اور قصیدہ بھی قدیم اصناف میں سے ہیں، لیکن ان کی ہیئتیں ابتدا ہی سے طے تھیں۔ مرثیے کی کوئی ہیئت طے نہیں تھی۔ شروع میں جو مرثیے دکّن میں لکھے گئے، وہ غزل کی طرح مفرد اشعار پر مبنی تھے۔ فارسی میں بھی مرثیے کی یہی روایت تھی کہ وہ غزل کے انداز پر لکھے جاتے تھے اور ان کے اشعار میں کوئی اندرونی ربط نہیں ہوتا تھا۔ لوگ مجالسِ عزا کے لیے مرثیے لکھتے تھے۔ ان کا مقصد ثواب حاصل کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ جس کا لکھنا پڑھنا اور سننا سب ہی ثواب میں داخل ہو تو ایسے لوگ بھی اسے لکھنے لگیں گے جو فنِ شعر گوئی سے واقف نہیں ہیں۔ اس لیے فنی اعتبار سے مرثیے کو کم تر مانا جاتا تھا۔ لوگ بے جھجھک جس طرح چاہتے مرثیے لکھتے اور زبان و بیان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ مذہبی عقیدت میں چوں کہ غلطیو ں پر کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا، اس لیے ان کے معائب پر پردہ پڑا رہتا تھا۔ بعض تذکرہ نگاروں اور شعرا نے اس کی طرف اشارے کیے ہیں۔ سودا نے تو بہت صاف صاف الفاظ میں تنبیہ کی:
’’لازم ہے کہ مرتبہ در نظر رکھ کر مرثیہ کہے۔ نہ برائے گریہ عوام اپنے تئیں ماخوذ کرے۔‘‘
آنے والے ادوار میں مرثیے کو بہتر بنانے کی خواہش میں اس کی ہیئت میں بھی تبدیلیاں ہوئیں اور وہ مرثیے جو پہلے چند مختلف اشعار پر مبنی ہوتے تھے ان میں واقعات کو ربط اور تسلسل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے غزل یا قصیدے کی ہیئت کافی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے مربع مرثیے لکھے گئے۔ اس کے بعد ایک عرصے تک مربع اور مربع ترجیع بند میں مرثیے لکھے جاتے رہے۔ مربع مرثیوں نے پہلی بار مرثیے کو بند کا تصور دیا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بیان میں وسعت پیدا ہوئی اور واقعے کو اس کی تفصیلات کے ساتھ پیش کرنے کی گنجائش نکل آئی اور ان تجربات نے مرثیے کے مسدّس تک پہنچنے کی راہیں ہم وار کیں۔ اس طرح کے مرثیے دکّن میں ہی کہے جانے لگے تھے۔ درگاہ قلی خاں کے مرثیوں میں مخمس، دہرہ بند، اور ترجیح بند مرثیوں کی مثالیں مل جاتی ہیں۔
دہلی سے ادبی مرکز کے لکھنؤ منتقل ہونے پر وہاں کی سر زمین مرثیے کو بہت راس آئی۔ خلیق و ضمیر نے اس کے ادبی خد و خال کو درست کیا۔
میر خلیق نے بیانیے کی بنیاد کو مضبوط کیا اور مرثیے میں سفر کا حال، رخصت اور شہادت کو تفصیل سے بیان کیا۔ میر ضمیر نے جنگ کی تفصیلات کا اضافہ کرکے مرثیے میں رزمیہ کے امکانات کو روشن کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سراپا بیان کرنے پر خصوصی توجہ دی۔
سراپے کے بیان، جنگ کی تفصیلات، رخصت اور سفر کے حالات نے مرثیے کو جذبات نگاری کا بہت بڑا میدان فراہم کر دیا۔ جسے میر انیس و مرزا دبیر نے معراج ِکمال تک پہنچا دیا۔
یہ انیس و دبیر کا کمال ہے جنہوں نے مرثیے کو ایک مکمل فن پارہ بنا دیا اور اس میں وہ طاقت پیدا کردی کہ وہ عالمی ادب سے آنکھ ملا سکے۔
مرثیے کی انفرادیت اور اہمیت کا سبب بھی وہی ہے جو عالمی ادب کی ان تخلیقات کا ہے جن میں مذہبی عقائد کا اظہار کیا گیا ہے۔ یعنی واقعے کی انسانی و اخلاقی قدریں، زبان و بیان کی سحر کاری، اظہار و اسلوب کی دل پذیری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری پر مکمل قدرت، انیس و دبیر نے مرثیے میں یہ تمام محاسن جمع کر دیے تھے۔ اسی لیے آج اردو مرثیے کو ادب میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔
جدید مرثیہ نگاروں میں بہت سے مقبول مرثیہ نگاروں کے نام لیے جا سکتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اہمیت جوش ملیح آبادی کو حاصل ہے۔ انہوں نے مرثیے کو بالکل نئے طریقے سے استعمال کیا۔ ان کے یہاں مرثیے کی ہیت تو مسدّس ہی ہے، لیکن موضوع کی حیثیت سے انہوں نے انیس و دبیر کے راستے سے انحراف کر کے واقعے کو تسلسل سے بیان کرنے کے بجائے امام حسین رضی اللہ عنہ کے کردار کو اہمیت دی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے انصار و اعزا کو انقلاب کی سب سے بڑی طاقت کی شکل میں پیش کیا۔
جدید مرثیہ نگاروں میں نجم آفندی، رزم ردولوی، نسیم امروہوی، سید آلِ رضا، رئیس امروہوی، مہدی نظمی، وحید اختر، محسن جون پوری اور بہت سے ایسے شعرا ہیں جنہوں نے مرثیے میں نئے امکانات کی تلاش کی اور اردو مرثیے کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔
(پروفیسر شارب ردولوی کے مرثیہ گوئی سے متعلق مضمون سے انتخاب)