ایک تھی بڑھیا اور اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔ بیٹا بہت دور رہتا تھا۔ بڑھیا اکیلی تھی اور بیمار رہتی تھی۔
ایک روز بڑھیا نے سوچا، چلوں اپنے بیٹے کے گھر۔ لیکن وہ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاتی۔ اس کا گھوڑا بھی نہیں تھا اور نہ کوئی سنگی ساتھی۔ وہ کیا کرتی۔ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاتی۔
بچوں کی مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
بڑھیا نے سوچا، میں کیا کروں۔ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاؤں۔
بڑھیا کے گھر میں ایک بڑا سا مٹکا تھا۔ مٹکے نے کہا، ’’کیوں فکر کرتی ہو۔ میں لے جاؤں گا تمہیں، تمہارے بیٹے کے گھر۔‘‘
بڑھیا خوش ہو گئی۔ اس رات بہت بارش ہوئی۔ ندی نالوں میں پانی آ گیا۔ چاروں طرف پانی ہی پانی۔ گلیاں اور بازار پانی سے بھر گئے۔
مٹکے نے کہا، ’’جلدی کر، چلیں۔‘‘
’’بڑھیا مٹکے میں بیٹھ گئی۔ مٹکا پانی میں اتر گیا اور تیرنے لگا۔‘‘
بڑھیا بولی، چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم
مٹکا چل پڑا۔ گلیوں اور بازاروں سے ہوتا ہوا۔ راستے میں جنگل تھا۔ جنگل میں جانور تھے۔
جانوروں کو دیکھ کر بڑھیا ڈر گئی۔ کہنے لگی، ’’ہائے! مجھے جانور کھا جائیں گے۔‘‘
مٹکا بولا، ’’ڈر کاہے کا؟‘‘
بڑھیا نے کہا، ’’جنگل میں شیر بھی ہوگا۔‘‘
مٹکا بولا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
بڑھیا بولی، ’’جنگل میں لکڑ بگا بھی ہوگا۔‘‘
مٹکے نے کہا، ’’ہوتا رہے۔‘‘
بڑھیا بولی، ’’جنگل میں ریچھ بھی ہوگا۔‘‘
مٹکے نے کہا، ’’شیر، لکڑبگا، ریچھ جنگل میں ہیں تو آتے کیوں نہیں۔‘‘
یہ سن کر شیر، لکڑبگا اور ریچھ آ گئے۔
شیر بولا، ’’ہام ہام ہام بڑھیا کو میں کھاؤں گا۔‘‘
لکڑبگا بولا، ’’خی خی خی۔۔۔ بڑھیا کو میں کھاؤں گا۔‘‘
ریچھ کہنے لگا، ’’مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ بڑھیا کو مجھے کھانے دو۔‘‘
بڑھیا بولی، ’’کیوں کھاتے ہو مجھے۔ میں تو کمزور سی ہوں۔ مجھے بیٹے کے گھر جانے دو۔ بیٹے کے گھر۔ اچھے اچھے کھانے کھاؤں گی تو موٹی ہوجاؤں گی۔ جب بیٹے کے گھر سے واپس آؤں گی تب کھا لینا۔‘‘
شیر بولا، ’’ہوں۔‘‘ لکڑبگا اور ریچھ بولے، ’’ہوں‘‘
بڑھیا کی جان میں جان آئی تو بولی،
چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم
مٹکا چل پڑا۔ بڑھیا، جنگل سے نکل کر اپنے بیٹے کے گھر پہنچی۔ وہ بہت خوش تھی۔ بیٹے نے اسے اچھے اچھے کھانے کھلائے بڑھیا نے جی بھر کر کھایا۔
بڑھیا، کھا کھا کر خوب موٹی تازی ہو گئی۔ ایک دن بڑھیا کہنےلگی، ’’بیٹا ، اب میں اپنے گھر جاؤں گی۔‘‘
بیٹا بولا، ’’خیر سے جائیں۔‘‘ بڑھیا مٹکے میں بیٹھ گئی۔
چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم
مٹکا چل پڑا۔ راستے میں جنگل تھا۔
جنگل میں شیر، لکڑبگا اور ریچھ تھے۔ شیر نے مٹکے میں بیٹھی بڑھیا کو دیکھ لیا۔ کہنے لگا،
’’بڑھیا تو خوب موٹی تازی ہوکر آئی ہے۔‘‘
لکڑبگا بولا، ’’خی خی خی۔۔۔ مجھے تو بھوک لگ گئی۔‘‘
ریچھ نے کہا، ’’آؤ اب بڑھیا کو کھالیں۔‘‘
جنگل کے سارے جانور مل کر بولے، ’’اچھا، تو اب ہم بڑھیا کو کھائیں گے۔‘‘ یہ سن کر بڑھیا بولی، ’’پہلے مجھے دو دو مٹھی ریت لا دو، تب کھانا۔‘‘ وہ مان گئے۔
دو مٹھی ریت شیر لایا۔ دو مٹھی لکڑبگا اور دو مٹھی ریچھ لایا۔ بڑھیا اپنے ہاتھوں میں ریت لے کر بیٹھ گئی اور بولی،
’’آؤ، اب مجھے کھاؤ۔‘‘ جب وہ اسے کھانے کو آگے بڑھے تو بڑھیا نے مٹھی بھر بھر کر ریت ان کی آنکھوں میں ڈال دی۔ اب جانور اسے کیسے کھاتے۔
بڑھیا بولی،
چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم
مٹکا چل پڑا۔ جنگل کے جانور پیچھے رہ گئے اور بڑھیا اپنے گھر پہنچ گئی۔
(مصنّف: مرزا حامد بیگ)