تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

دو سہیلیاں (دل چسپ حکایت)

یہ بہت پرانے زمانے کی بات ہے، ایک گاؤں میں دو انتہائی حسین و جمیل لڑکیاں رہتی تھیں۔ وہ ایک دوسرے کی گہری دوست بھی تھیں۔

ان کے گھر گاؤں کے ایک نکڑ پر تھے۔ اس گاؤں کے چاروں طرف پہاڑ ایستادہ تھے، اونچے اونچے ان پربتوں کے دامن سے میٹھے، لہراتے اور اٹھکیلیاں کرتے جھرنے اور چشمے اس قصبے کے باسیوں کو سیراب کرتے تھے۔

غرض کہ ایک ہرا بھرا، پُرسکون اور پُرامن گاؤں تھا جہاں وہ حسین لڑکیاں جن میں سے ایک کا نام ’’سچائی‘‘ اور دوسری کا ’’داستان‘‘ رہتی تھیں۔

ایک روز ’’سچائی‘‘ اور ’’داستان‘‘ گپ شپ میں مصروف تھیں کہ ان کی بات چیت میں ایسا موضوع آیا جس پر اچانک بات بحث و مباحثے میں بدل گئی۔ بات بس اتنی سی تھی کہ ان دونوں میں سے کون لوگوں کا زیادہ پسندیدہ ہے؟ کس کے زیادہ دوست ہیں اور لوگ کس کا ساتھ دینا پسند کرتے ہیں؟

طویل مباحثے اور تکرار کے باوجود دونوں کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں تو انھیں ایک طریقہ سوجھا۔ طے یہ پایا کہ دونوں باری باری گاؤں کے مرکزی بازار اور گلیوں سے گزریں گی اور اس دوران جس کے ساتھ زیادہ لوگ آکر کھڑے ہوئے وہ فاتح ہو گا۔

پہلی باری ’’سچائی‘‘ کی تھی۔ وہ جب بازاروں اور گلیوں سے گزری تو دیکھا کہ لوگ آہستہ آہستہ اِدھر اُدھر ہوجاتے، اور کوشش کرتے کہ ’’سچائی‘‘ سے دُور رہیں۔ سچائی چلتی جارہی تھی اور اسے دیکھ کر بالکونیوں، دریچوں سے جھانکنے والے مرد اور عورتیں پیچھے ہٹتے جارہے تھے۔ لوگ گلیوں سے غائب ہونے لگے تھے اور کوئی اس کے ساتھ چلنے کو تیار نہ تھا۔

جب ’’سچائی‘‘ تھک ہار کر گاؤں کے دوسرے کونے پر پہنچی تو اس کے ساتھ چند ہی لوگ تھے۔

وہ بے چاری گھبرا گئی اور اس نے سوچا کہ میں تو ہار جاؤں گی۔ اس نے سوچا کہ اب ایسا کیا کروں کہ لوگ مجھے زیادہ پسند کریں تو اس کے ایک حمایتی نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپ کو زیادہ مقبول بنانے کے لیے برہنہ ہو جائے۔ ’سچائی‘‘ اس کے جھانسے میں آ گئی اور برہنہ ہو کر دوبارہ سفر پر چل پڑی۔

اس بار اسے مزید دھچکا لگا۔ اس نے دیکھا کہ مزید لوگ تو کیا جو اس کے ساتھ تھے، وہ بھی اچانک غائب ہوگئے ہیں۔ پریشانی کے عالم میں وہ جب گھر پہنچی تو ’’داستان‘‘ نے پوچھا کہ بتاؤ یہ سفر کیسا رہا؟ اس پر ’’سچائی‘‘ نے اسے سچ بتا دیا۔

یہ سن کر ’’داستان‘‘ بولی ٹھہرو، میں بھی اپنی باری پوری کر لوں، پھر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔

اب ’’داستان‘‘ کی باری تھی۔ وہ جہاں سے گزرتی لوگوں کا رش لگ جاتا اور ان میں سے کافی لوگ اس کے ساتھ ہو لیتے۔ عورتیں کھڑکیوں سے جھانک کر اس کا دیدار کرتیں اور سبھی اس کو دیکھنے کے مشتاق نظر آتے۔ یوں جب وہ گاؤں کے آخر تک پہنچی تو اس کے ساتھ لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

’’داستان‘‘ اپنا سفر تمام کر کے واپس گھر پہنچی تو اس نے ’’سچائی‘‘ کو کہا کہ میں تمہیں بتاتی ہوں کہ تم کیوں ناکام رہیں اور میں کیوں کام یاب ہوئی؟

’’داستان‘‘ نے کہا، دیکھو میری دوست ’’سچائی‘‘ کو کوئی بھی زیادہ پسند نہیں کرتا۔ تمہیں اس بات کا احساس تو ہو ہی گیا ہو گا اور ’’برہنہ سچائی‘‘ کو تو اکا دُکا لوگ ہی پسند کرتے ہیں، اس لیے تم بھی میرا یعنی ’’داستان‘‘ کا لبادہ پہن لو، لوگ تمہیں زیادہ پسند کریں گے۔

سچائی نے اسے آزمایا تو بالکل درست پایا۔ وہ ایک روز ’’داستان‘‘ کا لبادہ اوڑھ کر نکلی تو دیکھا کہ پہلے سے بہت زیادہ لوگ اس کے ساتھ ہیں اور اس کی ہر بات کی تائید بھی کر رہے ہیں۔

کسی نے سچ کہا ہے کہ دنیا میں بہت کم لوگ سچائی کو پسند کرتے ہیں اور اس کا ساتھ دینے کی ہمت کر پاتے ہیں، زیادہ تر لوگ داستان اور سنی سنائی باتوں میں ہی دل چسپی لیتے ہیں۔

(ایک قدیم لوک کہانی)

Comments

- Advertisement -